Sheikh Zubair Alizai

Sunan Abi Dawood Hadith 1538 (سنن أبي داود)

[1538]صحیح

صحیح بخاری (1162)

تحقیق وتخریج:محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُقَاتِلٍ خَالُ الْقَعْنَبِيِّ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَی الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ يَقُولُ لَنَا إِذَا ہَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ وَلْيَقُلْ اللہُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللہُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ يُسَمِّيہِ بِعَيْنِہِ الَّذِي يُرِيدُ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَمَعَادِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْہُ لِي وَيَسِّرْہُ لِي وَبَارِكْ لِي فِيہِ اللہُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُہُ شَرًّا لِي مِثْلَ الْأَوَّلِ فَاصْرِفْنِي عَنْہُ وَاصْرِفْہُ عَنِّي وَاقْدِرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِہِ أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِہِ قَالَ ابْنُ مَسْلَمَةَ وَابْنُ عِيسَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابَرٍ

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں استخارے کی (اس اہتمام سے) تعلیم فرماتے تھے جیسے کہ قرآن کی کوئی سورت۔آپ ﷺ ہمیں فرماتے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیئے کہ فرضوں کے علاوہ دو رکعتیں پڑھے اور یوں دعا کرے ((اللہم إنی أستخیرک بعلمک وأستقدرک بقدرتک *** )) ’’اے اللہ! میں تیرے علم کے واسطے سے خیر اور بھلائی چاہتا ہوں۔اور تیری قدرت کے واسطے سے قدرت طلب کرتا ہوں۔اور تیرے فضل عظیم کا سوال کرتا ہوں۔بیشک تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا۔تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔اور تو تمام غیبوں اور پوشیدہ امور سے پوری طرح باخبر ہے۔اے اللہ! اگر تیرے علم میں یہ معاملہ (یہاں اپنے کام کا نام لے) میرے دین،دنیا،آخرت اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے حق میں مقدر فرما دے،اسے میرے لیے آسان کر دے اور مجھے اس میں برکت دے۔اور اگر یہ معاملہ (یہاں اپنے کام کا نام لے) تیرے علم کے مطابق میرے لیے برا ہے،دین،دنیا،آخرت یا انجام کے لحاظ سے،تو مجھے اس سے پھیر دے اور اس کو مجھ سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فرما دے جہاں بھی ہو،پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔‘‘ راوی نے کہا یا شاید ((خیر لی فی دینی ومعاشی ومعادی وعاقبۃ أمری)) کی بجائے ((فی عاجل أمری وآجلہ)) کے لفظ فرمائے ’’یعنی میرے معاملے میں یہ جلد یا بدیر،بہتر ہو۔‘‘ ابن مسلمہ اور ابن عیسیٰ اس سند کو لفظ ((عن)) سے بیان کرتے ہیں۔((عن محمد بن المنکدر عن جابر‏))۔