گیارہ رکعات قیامِ رمضان (تراویح) کا ثبوت اور دلائل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


اس مختصر مضمون میں گیارہ رکعات قیامِ رمضان (تراویح) کا ثبوت اور (بعض تحقیقی اور بعض الزامی) دلائل پیشِ خدمت ہیں:

1) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

’’ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علٰی احدیٰ عشرۃ رکعۃ …‘‘

رمضان ہو یا غیر رمضان، آپ ﷺ گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔

(صحیح بخاری ج 1ص 269 ح 2013، عمدۃ القاری ج 11 ص 128، کتاب التراویح باب فضل من قام رمضان)

اس حدیث پر امام بخاری اور محدث بیہقی رحمہمااللہ نے قیام رمضان (اور تراویح) کے عنوانات لکھے ہیں۔ (مثلاً دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی 2/ 495۔496)

نیز بہت سے حنفی وغیر حنفی علماء نے اس حدیث سے استدلال کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس سے مراد قیامِ رمضان (تراویح) ہے۔ مثلاً دیکھئے نصب الرایہ للزیلعی (2/ 153) الدرایہ لابن حجر العسقلانی (1/ 203) عمدۃ القاری للعینی (11/ 128) فتح القدیر لابن ہمام (1/ 467) اور الحاوی للسیوطی (1/ 348)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے …… آپ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے اور (آخر میں) ایک وتر پڑھتے تھے۔

(صحیح مسلم ج 1 ص 254 ح 736)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات دو دو کر کے (2+2+2+2+2) اور آخر میں ایک وتر (کل 11) پڑھنا ثابت ہے۔

2) سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ نے ہمیں رمضان میں نماز پڑھائی، آپ نے آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے۔

(صحیح ابن خزیمہ 2/ 138 ح 1070، وسندہ حسن، صحیح ابن حبان، الاحسان 4/ 62، 64 ح 2401، 2406)

اس حدیث کے راوی عیسیٰ بن جاریہ رحمہ اللہ جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث ہیں۔ (دیکھئے تحقیقی مقالات ج 1 ص 525۔532)

دوسری روایت میں آیا ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

میں نے رمضان میں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے اور نبی ﷺ کو بتایا تو آپ نے کچھ نہیں کہا، پس یہ رضا مندی والی سنت بن گئی۔

(مسند ابی یعلیٰ 3/ 236 ح 1801، وسندہ حسن، مجمع الزوائد 2/ 74 وقال الہیثمی: رواہ أبو یعلیٰ و الطبرانی بنحوہ فی الأوسط و إسنادہ حسن)

3) سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ (خلیفۂ راشد و امیر المومنین) نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری (رضی اللہ عنہما) کو حکم دیا، لوگوں کو گیاہ رکعات پڑھائیں۔ (موطأ امام مالک روایۃ یحییٰ 1/ 114ح 249، السنن الکبریٰ للبیہقی 2/ 496)

اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی اضطراب نہیں بلکہ جب طحاوی نے اس روایت کو دو سندوں سے بیان کیا تو عینی حنفی نے کہا:

’’ما أخرجہ عن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ من طریقین صحیحین‘‘

جو انھوں (طحاوی) نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے دو صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔

(نخب الافکار فی تنقیح مبانی الاخبار فی شرح معانی الآثار ج 5 ص 103)

نیموی نے کہا: ’’و إسنادہ صحیح‘‘ (آثار السنن ص 250)

ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ صحابی نے فرمایا:

ہم (سیدنا) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔

(سنن سعید بن منصور بحوالہ الحاوی للفتاوی 1/ 349 وقال السیوطی: بسند في غایۃ الصحۃ)

دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا اُبئ بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 392 ح 7670 وسندہ صحیح)

4) طحطاوی حنفی اور محمد احسن نانوتوی نے لکھا ہے:

’’لأن النبي علیہ الصلٰوۃ والسلام لم یصلھا عشرین بل ثماني‘‘

بے شک نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھی ہیں۔

(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 1/ 295 واللفظ لہ، حاشیۃ کنز الدقائق ص 36 حاشیہ نمبر 4)

5) انور شاہ کاشمیری دیوبندی نے کہا:

’’وأما عشرون رکعۃ فھو عنہ علیہ السلام بسند ضعیف و علٰی ضعفہ اتفاق‘‘

اور جو بیس رکعات ہیں تو وہ آپ ﷺ سے ضعیف سند کے ساتھ (مروی) ہیں اور اس (روایت) کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔

(العرف الشذی ج 1 ص 166)

انور شاہ صاحب نے مزید کہا:

اور اس بات کے تسلیم کرنے سے کوئی چھٹکارا نہیں کہ آپ علیہ السلام کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور روایتوں میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ ثابت نہیں کہ آپ علیہ السلام نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھے ہوں……

رہے نبی ﷺ تو آپ سے آٹھ رکعات صحیح ثابت ہیں اور رہی بیس رکعتیں تو وہ آپ علیہ السلام سے ضعیف سند کے ساتھ (روایت) ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔

(العرف الشذی ج 1 ص 166، مترجماً)

نیز دیکھئے فیض الباری (ج 2 ص 420)

6) ابو بکر بن العربی المالکی (متوفی 543ھ) نے کہا:

اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں (یہی) نبی ﷺ کی نماز اور قیام ہے اور اس کے علاوہ جو اعداد ہیں تو ان کی کوئی اصل نہیں۔

(عارضۃ الاحوذی شرح الترمذی ج 4 ص 19)

7) خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے لکھا ہے:

’’اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے‘‘

(براہین قاطعہ ص 195)

8) ابن ہمام حنفی نے کہا:

اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیامِ رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر (اور) جماعت کے ساتھ سنت ہے۔

(فتح القدیر شرح الہدایہ ج 1 ص 407، نیز دیکھئے البحر الرائق ج 2 ص 67)

9) دیوبندیوں کے منظورِ نظر عبد الشکور لکھنوی نے لکھا ہے:

’’اگرچہ نبی ﷺ سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔ مگر……‘‘

(علم الفقہ ص 198، حاشیہ)

عرض ہے کہ صحیح حدیث اور آثارِ صحیحہ کے بعد اگر مگر کی کوئی ضرورت نہیں اور صحیح حدیث پر عمل میں ہی نجات ہے۔

10) محمد یوسف بنوری دیوبندی نے تسلیم کیا:

پس یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ ﷺ نے آٹھ رکعات تراویح بھی پڑھی ہیں۔

(معارف السنن ج 5 ص 543 مترجماً)

11) امام شافعی رحمہ اللہ نے بیس رکعات کو پسند کرنے کے بعد فرمایا:

اس چیز (تراویح) میں ذرہ برابر تنگی نہیں اور نہ کوئی حد ہے، کیونکہ یہ نفل نماز ہے، اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور مجھے زیادہ پسند ہے اور اگر رکعتیں زیادہ ہوں تو بھی بہتر ہے۔

(مختصر قیام اللیل للمروزی ص 202۔203)

1: بعض آلِ تقلید نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’بیس رکعتیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہیں‘‘ لیکن یہ دعویٰ کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں، بلکہ ہماری پیش کردہ دلیل نمبر 3 کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

2: بعض آلِ تقلید نے بس رکعات تراویح پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، حالانکہ اجماع کا یہ دعویٰ باطل ہے۔ (دیکھئے میری کتاب: تعداد رکعاتِ قیامِ رمضان کا تحقیقی جائزہ ص 84۔87)

3: درج ذیل حنفی اور دیوبندی علماء نے آٹھ رکعات تراویح کا سنت ہونا تسلیم کیا ہے:

ابن ہمام، طحطاوی، ملا علی قاری، حسن بن عمار شرنبلانی۔

محمد احسن نانوتوی، عبدالشکور لکھنوی، عبدالحی لکھنوی، خلیل احمد سہارنپوری، احمدعلی سہارنپوری، انور شاہ کاشمیری اور محمد یوسف بنوری۔

تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب: تعدادِ رکعاتِ قیامِ رمضان کا تحقیقی جائزہ

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 5 صفحہ 167 تا 170)