اہلِ حدیث سے مراد ’’محدثینِ کرام اور اُن کے عوام‘‘ دونوں ہیں

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

آج کل بعض لوگ کہتے ہیں: ’’اہلِ حدیث سے مراد صرف محدثینِ کرام ہیں، محدثین کے عوام نہیں ہیں۔‘‘ کیا ان لوگوں کی یہ بات صحیح ہے؟ (ایک سائل)

الجواب:

ان لوگوں کی یہ بات بالکل غلط اور خود ساختہ ہے، کیونکہ اہلِ حدیث سے (صحیح العقیدہ) محدثین کرام اور حدیث پر عمل کرنے والے اُن کے عوام دونوں مراد ہیں اور یہی حق ہے۔

اس کی فی الحال دس (10) دلیلیں پیشِ خدمت ہیں:

دلیل نمبر 1:

علمائے حق کا اجماع ہے کہ طائفہ منصورہ (فرقۂ ناجیہ) سے مراد اہلِ حدیث ہیں، لہٰذا عرض ہے کہ جب محدثین کرام جنت میں تشریف لے جائیں گے تو کیا اُن کے عوام باہر کھڑے رہیں گے؟!

دلیل نمبر 2:

امامِ اہلِ سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’صاحب الحدیث عندنا من یستعمل الحدیث‘‘

ہمارے نزدیک اہلِ حدیث وہ ہے جو حدیث پر عمل کرتا ہے۔

(مناقب الامام احمد لابن الجوزی ص 208 وسندہ صحیح)

دلیل نمبر 3:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

ہم اہلِ حدیث کا یہ مطلب نہیں لیتے کہ اس سے مراد صرف وہی لوگ ہیں جنھوں نے حدیث سُنی، لکھی یا روایت کی ہے بلکہ اس سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ہر آدمی جو اس کے حفظ، معرفت اور فہم کا ظاہری و باطنی لحاظ سے مستحق ہے اور ظاہری و باطنی لحاظ سے اس کا اتباع کرتا ہے اور یہی معاملہ اہلِ قرآن کا ہے۔

(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج 4ص 95، ماہنامہ الحدیث حضرو: 29 ص 32)

حافظ ابن تیمیہ کی اس تشریح سے معلوم ہوا کہ اہلِ حدیث سے مراد دو قسم کے لوگ ہیں:

1- محدثینِ کرام اور

2- اُن کے عوام

دلیل نمبر 4:

حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اہلِ حدیث کی درج ذیل صفت بیان کی:

وہ حدیثوں پر عمل کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں۔

(صحیح ابن حبان، الاحسان: 6129، الحدیث حضرو: 29 ص 23)

دلیل نمبر 5:

ثقہ امام احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ (متوفی 259ھ) نے فرمایا:

دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہیں جو اہلِ حدیث سے بغض نہیں رکھتا۔

(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص 4 وسندہ صحیح)

یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ صحیح العقیدہ محدثینِ کرام اور اُن کے عوام دونوں سے اہلِ بدعت بہت بغض رکھتے ہیں۔

دلیل نمبر 6:

قرآن مجید سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو اُن کے امام کے ساتھ پکارا جائے گا۔ (دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل: 71)

اس کی تفسیرمیں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بعض سلف (صالحین) سے نقل کیا کہ یہ آیت اہلِ حدیث کی سب سے بڑی فضیلت ہے، کیونکہ اُن کے امام نبی ﷺ ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر 4/ 164، دیکھئے الحدیث حضرو: 29 ص 28)

محدثینِ کرام اور اُن کے عوام دونوں نبی کریم ﷺ کو ہی اپنا امام یعنی امام اعظم سمجھتے ہیں۔

دلیل نمبر 7:

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنے مشہور قصیدہ نونیہ میں فرمایا:

اے اہلِ حدیث سے بغض رکھنے اور گالیاں دینے والے، تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی بشارت ہو۔

(الکافیہ الشافیہ ص 199، الحدیث حضرو: 29 ص 28)

دنیا میں آپ جہاں بھی چلے جائیں، یہ دیکھیں گے کہ محدثینِ کرام اور اُن کے عوام سے تمام اہلِ بدعت بغض رکھتے ہیں اور بسا اوقات گالیاں بھی دیتے ہیں۔

دلیل نمبر 8:

علامہ جلال الدین سیوطی نے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 71 کی تفسیر میں نقل فرمایا:

اہلِ حدیث کے لئے اس سے زیادہ فضیلت والی دوسری کوئی بات نہیں، کیونکہ آپ ﷺ کے سوا اہلِ حدیث کا کوئی امام نہیں ہے۔

(تدریب الراوی ج 2 ص 126، نوع 27)

محدثینِ کرام کی طرح اُن کے عوام بھی علانیہ طور پر نبی کریم ﷺ ہی کو اپنا امام (یعنی امام اعظم) قرار دیتے ہیں اور یہی اُن کا منہج و ایمان ہے۔

دلیل نمبر 9:

ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر البغدادی (متوفی 429ھ) نے ملک ِشام وغیرہ کی سرحدوں پر رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں کہا:

وہ سب اہلِ سنت میں سے اہلِ حدیث کے مذہب پر ہیں۔

(اصول الدین ص 317)

یہ کسی دلیل سے ثابت نہیں کہ صرف محدثینِ کرام ہی مذکورہ سرحدی علاقوں میں رہتے تھے اور وہاں اُن کے عوام موجود نہیں تھے، لہٰذا ثابت ہوا کہ عبدالقاہر بغدادی کے نزدیک محدثین کے عوام بھی اہلِ حدیث ہیں۔

دلیل نمبر 10:

ابو عبداللہ محمد بن احمد بن البناء المقدسی البشاری (متوفی 380ھ) نے اپنے دور کے اہلِ سندھ کے بارے میں لکھا:

’’مذاھبھم أکثرھم أصحاب حدیث و رأیت القاضي أبا محمد المنصوري داودیًّا إمامًا في مذہبہ ولہ تدریس و تصانیف، قد صنّف کتبًا عدّۃ حسنۃً‘‘

ان (سندھیوں) کے مذاہب: ان میں اکثر اہلِ حدیث ہیں اور میں نے قاضی ابو محمد المنصوری کو دیکھا، وہ داود ظاہری کے مسلک پر اپنے مذہب (اہلِ ظاہر) کے امام تھے، وہ تدریس بھی کرتے ہیں اور کتابیں بھی لکھی ہیں، انھوں نے بہت سی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔

(احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم ص 363)

بشاری نے سندھیوں کی اکثریت کو اہلِ حدیث قرار دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ محدثین کرام کی طرح صحیح العقیدہ عوام بھی اہلِ حدیث ہیں۔

ان کے علاوہ اور بھی کئی دلائل ہیں اور ہمارے علم کے مطابق کسی مستند محدث یا معتبر عالم سے یہ قطعاً ثابت نہیں کہ اہلِ حدیث سے مراد صرف محدثینِ کرام ہیں، اور یہ کہ محدثین کرام تو گزر چکے ہیں اور اب کوئی محدث دنیا میں باقی نہیں رہا اور نہ یہ ثابت ہے کہ کتاب و سنت پر (تقلید کے بغیر) عمل کرنے والے محدثینِ کرام کے عوام اس سے مراد نہیں ہیں۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے توضیح الاحکام (جلد 3 صفحہ 13 تا 15) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ