ایک دوسرے کو سلام کہنا

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

قرآن مجید میں الفاظ ’’سلام ٌ علیکم‘‘ ہیں۔ اسی طرح صحیح ابن حبان میں بھی ہیں، جیسا کہ امام دمیاطی نے ’’المتجرالرابح‘‘ میں نقل فرمایا۔

سوال یہ ہے کہ اکثر لوگ ایک دوسرے کو سلام کرتے وقت ’’سلامُ علیکم‘‘ کہتے ہیں۔ جب کہ سلام کے حوالے سے اکثر احادیث میں ’’السلامُ علیکم‘‘ کے الفاظ ہیں جیسا کہ امام نووی نے ریاض الصالحین میں اکثر ایسی احادیث کو جمع کر دیا ہے۔

کیا ’’سلامُ علیکم‘‘ کہنا بھی جائز ہے؟

الجواب:

السلامُ علیکم کہنا زیادہ بہتر ہے، جیسا کہ احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے۔ (مثلاً دیکھئے صحیح بخاری: 6227، صحیح مسلم: 2841 / 7163)

سلام ٌ علیکم بھی صحیح ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ (دیکھئے سورۃ الانعام: 54، الاعراف: 46، الزمر: 73)

اسی طرح صرف سلام ٌ اور سلامًا بھی آیا ہے۔ (مثلاً دیکھئے سورۃ ھود: 69)

لیکن کسی آیت یا حدیث میں سلامُ علیکم نہیں آیا اور نہ ایسے الفاظ سلف صالحین سے آئے ہیں، لہٰذا سلامُ علیکم (یعنی م کی ایک پیش کے ساتھ) نہیں بلکہ ’’السلام علیکم‘‘ کہنا چاہئے جو کہ مسنون ہے۔

یاد رہے کہ سلام کہنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا ضروری (فرض وواجب) ہے، لہٰذا سلام کہنے والے کا جواب بھی صحیح اور بہتر طریقے سے دینا چاہئے۔ مثلاً ’’السلام علیکم‘‘ کا ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ‘‘ یا ’’وعلیکم السلام‘‘کے الفاظ سے جواب دینا چاہئے۔

جو لوگ سلام کے جواب میں صرف سر ہلا کر یا مسنون الفاظ کے بغیر جواب دیتے ہیں، وہ سخت غلطی پر ہیں، بلکہ گناہ کے مرتکب ہیں۔

فائدہ: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (دیکھئے سنن ابی داود: 5195 وسندہ حسن، سنن الترمذی: 2689 و قال: حسن صحیح غریب)

اصل مضمون کےلئے دیکھئے توضیح الاحکام (ج 3 ص 278 اور 279)

نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 84 صفحہ 12)