رفع یدین کے خلاف ایک نئی روایت: أخبار الفقہاء والمحدثین؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


مسئلہ رفع یدین کے خلاف ایک نئی روایت اخذ کی گئی ہے جسے کچھ عرصہ سے بہت زوروشور سے تحریر وتقریر میں بیان کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ’’ترکِ رفع یدین‘‘ نامی ایک کتاب چھپی ہے جس میں اس روایت کو ’’اخبار الفقہاء والمحدثین‘‘ کے حوالے سے لکھا گیاہے لہٰذا اس روایت کی بھی تحقیق پیشِ خدمت ہے:

روایت کا متن

’’اخبار الفقہا ء والمحدثین‘‘ میں لکھا ہوا ہے:

حدّثني عثمان بن محمد قال: قال لي عبید اللہ بن یحیی: حدثني عثمان بن سوادۃ ابن عباد عن حفص بن میسرۃ عن زید بن أسلم عن عبداللہ بن عمر قال: کنا مع رسول اللہ ﷺ بمکۃ نرفع أیدینا في بدء الصلاۃ وفي داخل الصلاۃ عندالرکوع فلما ھاجر النبي ﷺ إلی المدینۃ ترک رفع الیدین في داخل الصلاۃ عند الرکوع وثبت علٰی رفع الیدین في بدء الصلاۃ۔

(ص 214 ت 378، ترکِ رفع یدین ص 491)

تارکینِ رفع یدین کی پیش کردہ روایت کئی لحاظ سے موضوع اور باطل ہے۔

دلیل نمبر 1:

’’اخبار الفقہاء والمحدثین‘‘ نامی کتاب کے شروع (ص 5) میں اس کتاب کی کوئی سند مذکور نہیں ہے اور آخر میں لکھا ہوا ہے:

’’تم الکتاب والحمدللہ حق حمدہ وصلی اللہ علی محمد وآلہ وکان ذلک في شعبان من عام 483ھ‘‘

کتاب مکمل ہو گئی اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جیسا کہ اس کی تعریف کا حق ہے اور محمد (ﷺ) اور آپ کی آل پر درود ہو۔ اور یہ (تکمیل) شعبان 483ھ میں ہوئی ہے۔

(اخبار الفقہاء ص 293)

اخبار الفقہاء کے مذکور مصنف محمد بن حارث القیروانی (متوفی 361ھ) کی وفات کے ایک سو بائیس (122) سال بعد اس کتاب اخبار الفقہاء کی تکمیل کرنے اور لکھنے والا کون ہے؟ یہ معلوم نہیں، لہٰذا اس کتاب کا محمد بن حارث القیروانی کی کتاب ہونا ثابت نہیں ہے۔

دلیل نمبر 2:

اس کے راوی عثمان بن محمد کا تعین ثابت نہیں ہے۔ بغیر کسی دلیل کے اس سے عثمان بن محمد بن احمد بن مدرک مراد لینا غلط ہے۔ اس ابن مدرک سے محمد بن حارث القیروانی کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

حافظ ذہبی لکھتے ہیں:

’’عثمان بن محمد بن خشیش القیرواني عن ابن غانم قاضي إفریقیۃ أظنہ، کان کذاباً‘‘

عثمان بن محمد بن خشیش القیروانی، ابن غانم قاضی افریقیہ سے روایت کرتا ہے، میرا خیال ہے، یہ کذاب تھا۔

(المغنی فی الضعفاء ج 2 ص 50 ت 4059)

عثمان بن محمد: کذاب قیروانی ہے اور محمد بن حارث بھی قیروانی ہے لہٰذا ظاہر یہی ہوتا ہے کہ عثمان بن محمد سے یہاں مراد یہی کذاب ہے۔

یاد رہے کہ عثمان بن محمد بن احمد بن مدرک کا ثقہ ہونا معلوم نہیں ہے۔

محمد بن الحارث القیروانی سے منسوب کتاب میں لکھا ہوا ہے:

’’قال خالد بن سعد: عثمان بن محمد ممن عني بطلب العلم و درس المسائل وعقد الوثائق مع فضلہ وکان مفتي أھل موضعہ توفی 320‘‘

خالد بن سعد نے کہا: عثمان بن محمد طلب ِ علم پر توجہ دینے والوں میں سے ہے، اس نے مسائل پڑھائے اور فضیلت کے ساتھ دستاویزیں لکھیں۔ وہ اپنے موضع (علاقے) کا مفتی تھا، 320ھ کو فوت ہوا۔

(اخبار الفقہاء والمحدثین ص 216)

اس عبارت میں تو ثیق کا نام و نشان نہیں ہے۔

غلام مصطفی نوری بریلوی نے اس عبارت کا ترجمہ درج ذیل لکھا ہے:

’’جناب خالد بن سعد نے فرمایا کہ عثمان بن محمد ان میں سے ہے جنہوں نے مجھ سے علم حاصل کیا ہے اور مسائل کا درس لیا ہے اور یہ پختہ عقد والے ہیں اور صاحب ِ فضیلت ہیں اور اپنے موضع کے مفتی تھے۔‘‘ (ترکِ رفع یدین ص 493)!!

دلیل نمبر3:

عثمان بن سوادہ بن عباد کے حالات ’’اخبار الفقہاء والمحدثین‘‘کے علاوہ کسی کتاب میں نہیں ملے۔

اخبار الفقہاء میں لکھا ہوا ہے:

’’قال عثمان بن محمد قال عبیداللہ بن یحیی: کان عثمان بن سوادۃ ثقۃ مقبولاً عند القضاۃ والحکام……‘‘

چونکہ عثمان بن محمد مجروح یا مجہول ہے لہٰذا عبیداللہ بن یحییٰ سے یہ توثیق ثابت نہیں ہے۔

نتیجہ: عثمان بن سوادہ مجہول الحال ہے اس کی پیدائش اور وفات بھی نامعلوم ہے۔

دلیل نمبر 4:

عثمان بن سوادہ کی حفص بن میسرہ سے ملاقات اور معاصرت ثابت نہیں ہے۔ حفص کی وفات 181ھ ہے۔

دلیل نمبر 5:

محمد بن حارث کی کتابوں میں ’’اخبار القضاۃ والمحدثین‘‘ کا نام تو ملتا ہے مگر ’’اخبار الفقہاء والمحدثین‘‘ کا نام نہیں ملتا۔ دیکھئے الاکمال لابن ماکولا (3/ 261) الانساب للسمعانی (2/ 372)

ہمارے اس دور کے معاصرین میں سے عمر رضا کحالہ نے ’’اخبار الفقہاء والمحدثین‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ (معجم المؤلفین 3/ 204)

اس طرح معاصر خیر الدین الزرکلی نے بھی اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ (الاعلام 6/ 75)

دلیل نمبر 6:

مخالفین رفع یدین جس روایت سے دلیل پکڑ رہے ہیں اس کے شروع میں لکھا ہوا ہے:

’’وکان یحدث بحدیث رواہ مسنداً في رفع الیدین وھو من غرائب الحدیث وأراہ من شواذھا‘‘

اور وہ رفع یدین کے بارے میں ایک حدیث سند سے بیان کرتا تھا۔ یہ غریب حدیثوں میں سے ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ شاذ روایتوں میں سے ہے۔

(اخبار الفقہاء والمحدثین ص 214)

یہ عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ شاذ روایت ضعیف ہوتی ہے۔

غلام مصطفی نوری صاحب نے ’’کمال دیانت‘‘ سے کام لیتے ہوئے ’’من شواذھا‘‘ کی جرح کو چھپا لیا ہے۔

ان دلائل کا تعلق سند کے ساتھ ہے۔

اب متن کا جائزہ پیشِ خدمت ہے:

دلیل نمبر 7:

اس روایت کے متن میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد رکوع والا رفع یدین چھوڑ دیا۔ جبکہ صحیح و مستند احادیث سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں رفع یدین کرتے تھے۔

ابو قلابہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:

مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب نماز پڑھتے تو تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے اور جب رکوع کرتے تورفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے اور فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ اسی طرح کرتے تھے۔

(صحیح مسلم 1/ 168 ح 391 وصحیح بخاری 1/ 102 ح 737)

مالک بن حویرث اللیثی رضی اللہ عنہ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تھے جب آپ ﷺ (مدینہ منورہ میں) غزوۂ تبوک کی تیاری کر رہے تھے۔ (دیکھئے فتح الباری ج 2 ص 110 ح 628)

وائل بن حجر الحضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

انھوں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔

(صحیح مسلم ج 1 ص 173 ح 401)

عینی حنفی لکھتے ہیں:

’’وائل بن حجر أسلم فی المدینۃ في سنۃ تسع من الھجرۃ‘‘

اور وائل بن حجر مدینہ میں نو (9) ہجری کو مسلمان ہوئے تھے۔

(عمدۃ القاری ج 5 ص 274)

9 ہجری میں جو وفود نبی ﷺ کے پاس آئے تھے، حافظ ابن کثیر الدمشقی نے ان میں وائل رضی اللہ عنہ کی آمد کا ذکر کیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ج 5 ص 71)

اس کے بعد (اگلے سال 10ھ) آپ دوبارہ آئے تھے، اس سال بھی آپ نے رفع یدین کا ہی مشاہدہ فرمایا تھا۔ (سنن ابی داود: 727، صحیح ابن حبان، الاحسان 3/ 169 ح 1857)

معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں رفع یدین نہیں چھوڑا بلکہ آپ ﷺ مدینہ میں بھی رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین کرتے رہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اخبار الفقہاء والی روایت موضوع ہے۔

دلیل نمبر 8:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔

(صحیح ابن خزیمہ 1/ 344 ح 694، 695)

یہ بات عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پاس مدینہ منورہ میں تشریف لائے تھے وہ آپ ﷺ کے آخری چار سالوں میں آپ کے ساتھ رہے ہیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والا رفع یدین کرتے تھے۔ (جزء رفع الیدین للبخاری بتحقیقی: 22)

اس روایت ِمذکورہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور امام ابو حنیفہ کے استاد عطاء بن ابی رباح بھی رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین کرتے تھے۔ (جزء رفع الیدین: 62 وسندہ حسن)

معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں رکوع والا رفع یدین متروک یا منسوخ بالکل نہیں ہوا تھا لہٰذا ’’اخبار الفقہاء‘‘ والی روایت جھوٹی روایت ہے۔

دلیل نمبر 9:

مشہور تابعی نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اور دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے وقت (چاروں مقامات پر) رفع یدین کرتے تھے۔

(صحیح بخاری 2/ 102 ح 739)

یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق رفع یدین منسوخ ہو جائے اور پھر بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یہ رفع یدین کرتے رہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں سب سے آگے تھے۔

دلیل نمبر 10:

نافع فرماتے ہیں کہ:

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جس شخص کو دیکھتے کہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین نہیں کرتا تو اسے کنکریاں مارتے تھے۔

(جزء رفع الیدین: 15 وسندہ صحیح)

امام نووی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’بإسنادہ الصحیح عن نافع‘‘

نافع تک اس کی سند صحیح ہے۔

(المجموع شرح المہذب ج 3 ص 405)

یہ کس طرح ممکن ہے کہ رفع یدین بروایت ابن عمر منسوخ ہو جائے پھر اس کی ’’منسوخیت‘‘ کے بعد بھی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس نامعلوم و مجہول جاہل کو ماریں جو رفع یدین نہیں کرتا تھا۔

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

کسی ایک صحابی سے رفع یدین کا نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔

(دیکھئے جزء رفع الیدین 40، 76، والمجموع للنووی 3/ 405)

معلوم ہوا کہ رفع یدین نہ کرنے والا آدمی، صحابہ کرام میں سے نہیں تھا بلکہ کوئی مجہول و نامعلوم شخص ہے۔

خلاصۃ التحقیق:

ان دلائل سابقہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ’’اخبار الفقہاء والمحدثین‘‘ والی روایت موضوع اور باطل ہے لہٰذا غلام مصطفی نوری بریلوی صاحب کا اسے ’’حدیث صحیح‘‘ کہنا جھوٹ اور مردود ہے۔

وما علینا إلا البلاغ (21 محرم 1426ھ) الحَافِظُ أَبُو طَاھِر زُبَیر عَلي زَئي

……… اصل مضمون ………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے نور العینین فی اثبات رفع الیدین (جدید نسخہ، صفحہ 205 تا 211) نیز دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 1 صفحہ 356 تا 362) للحَافِظُ أَبُو طَاھِر زُبَیر عَلي زَئي (رحمۃ اللہ علیہ)