اللہ پر ایمان اور ثابت قدمی

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


تحریر: حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

شائع ہوا: ماہنامہ الحدیث شمارہ 14 صفحہ نمبر 3 تا 4

وعن سفیان بن عبداللہ الثقفي ، قال: قلت: یارسول اللہ! قل لي في الإسلام قولاً لا أسال عنہ أحداً بعدک، وفي روایۃ: غیرک. قال: ’’قل آمنت باللہ، ثم استقم‘‘ رواہ مسلم

(سیدنا) سفیان بن عبداللہ الثقفی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے اسلام میں ایسی (جامع) بات بتائیں کہ آپ کے بعد کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپ (ﷺ)نے فرمایا:کہو میں اللہ پر ایمان لایا، پھر (اس پر) ثابت قدم ہو جاؤ۔ (مسلم: ۶۳/۳۸)

اس حدیث او ر دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ دین اسلام کا اصل اور بنیادی رکن ایمان باللہ ہے۔ اللہ ہی معبود برحق، مشکل کشا، حاجت روا، فریاد رس، حاکم اعلی اور قانون ساز ہے۔ اس کی صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں، یہی وہ عقیدہ تو حید ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور رسول بھیجے۔

اس حدیث کی بعض سندوں میں یہ اضافہ ہے کہ: سیدنا سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میرے بارے میں کس چیز کا آپ کو سب سے زیادہ خوف ہے؟ تو آپ ﷺ نے اپنی زبان پکڑ کرفرمایا: ’’یہ‘‘ یعنی اس زبان کا خوف سب سے زیادہ ہے۔ (سنن الترمذی: ۲۴۱۰ وقال: ھذا حدیث حسن صحیح، شعب الایمان للبیھقی: ۴۹۱۹ والزہری صرح بالسماع عندہ)

یاد رہے کہ توحید کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ آدمی ۔رسول اللہ ﷺ کی گستاخیاں شروع کر دے۔ آپ کے علم کو حیوانات ، پاگلوں اور بچوں کے علم سے تشبیہ دینے لگے۔ معاذ اللہ، ایساآدمی موحد نہیں بلکہ ملحد و زندیق ہے۔

توحید کا یہ لازمی نتیجہ اور رکن ہے کہ آدمی ۔رسول اللہ ﷺ پر بغیر افراط و تفریط کے صحیح ایمان لائے۔ آپ ﷺ سے والہانہ محبت اور پیار کرے۔ آپ کی گستاخی کے تصور اور خیال سے بھی بہت دور بھاگے۔ نہ تو آپ کو الٰہ معبود بنا دے اور نہ آپ کے مقام، فضیلت و درجات میں کسی قسم کی کمی کرے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ ﷺ کا مقام ہے۔ ہم سب آپ ﷺ پر فدا ہوں۔ آمین