دعوتِ حق کے لئے مناظرہ کرنا

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أنا زعیم ببیت في ربض الجنۃ لمن ترک المراء وإن کان محقًا))

میں جنت کے گردونواح میں اس آدمی کے لیے گھرکی ضمانت دیتا ہوں جو بحث وجدال چھوڑ دے اگرچہ وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو۔

(سنن ابی داود، کتاب الادب، باب فی حسن خلق: 4800 وسندہ حسن)

جب سے یہ حدیث پڑھی ہے ذہن بہت الجھ گیا، میرے سارے کلاس فیلو حنفی ہیں ان سے بڑی گرماگرم بحثیں ہوتی ہیں اور میں ہمیشہ قرآن وحدیث کے دلائل سے ان کو لاجواب کر دیتا ہوں مگر جب سے میں نے یہ حدیث ان کوسنائی ہے وہ میرے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث تیرے جیسے بندے کے لیے کہی ہے۔ کیوں کہ تو بحثیں بہت کرتاہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر ایک شخص شرک و بدعت کی تبلیغ کر رہا ہے تو اس پر حق واضح کردینا چاہئے اور ظاہر ی بات ہے کہ بحث تو ہو گی ایک دو باتوں سے تو وہ مطمئن نہ ہو گا۔

اور قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

﴿وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن﴾

اور ان سے احسن طریقے سے بحث و جدال کیجئے۔

اس لیے اگر ایک شخص قرآن وحدیث کو توڑ موڑ کر پیش کرتاہے اور شرک و بدعت کی توثیق میں ان کی من مانی تاویلات کر تاہے تو اس پر دلائل کے ذریعے سے بحث کر کے اتمام حجت کر دینی چاہیے۔ اور پھر علماء کا اختلافی مسائل پر بحث کرنا کس ضمن میں آتا ہے۔

الجواب:

لغت میں ’’المراء‘‘ کا مطلب ہے: ’’جھگڑا، کٹ حجتی، بحث‘‘ (القاموس الوحید ص 1546 ا)

علامہ ابن الاثیر (متوفی606 ھ) لکھتے ہیں:

’’المراء: الجدل، والتماری والمماراۃ: المجادلۃ علی مذھب الشک والریبۃ‘‘

مراء جھگڑے کو کہتے ہیں اور تماری، مماراۃ کا معنی یہ ہے کہ شک و شبہ کی بنیاد پر جھگڑا کیا جائے۔

(النہایۃ فی غریب الحدیث ج 4 ص 322)

معلوم ہوا کہ حدیث ِ مذکور میں احکام و اختلافی مسائل پر دعوت و تحقیق کے لیے بحث و مباحثہ مراد نہیں ہے۔

علامہ ابن اثیر مزید لکھتے ہیں:

’’وقیل: إنما جاء ھذا فی الجدال والمراء فی الآیات التي فیھا ذکر القدر ونحوہ من المعاني علی مذھب أھل الکلام وأصحاب الأھواء والآراء، دون ما تضمنتہ من الأحکام وأبواب الحلال والحرام فإن ذلک قد جری بین الصحابۃ فمن بعدھم من العلماء وذلک فیما یکون الغرض منہ والباعث علیہ ظھور الحق یتتبع دون الغلبۃ والتعجیز واللہ أعلم‘‘

اور کہا گیا ہے کہ اس حدیث (لاتماروا فی القرآن الخ) سے مراد، تقدیر وغیرہ کے مسائل میں آیات کریمہ میں، اہلِ کلام، اہل بدعت اور اہل رائے کی طرح جھگڑا کرنا ہے۔ اس سے احکام اور حلا ل وحرام والے مباحث مراد نہیں ہیں کیونکہ یہ بحثیں (اور مناظرے) تو صحابہ کرام اور بعد والے علماء کے درمیان ہوئے ہیں، ان کی غرض وغایت یہ تھی کہ حق واضح ہو جائے تاکہ حق کی اتباع کی جائے، ان سے مخالف پرمجرد غلبہ یاعاجز کرنا مراد نہیں تھا۔ واللہ اعلم

(النہایہ 4/ 322)

﴿وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن﴾ اور اچھے طریقے کے ساتھ ان لوگوں سے مجادلہ (بحث) کرو (النحل: 125)۔ جائز مناظرے کے جواز کی دلیل ہے۔

رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے کہ ((بلّغوا عني ولو آیۃ)) إلخ مجھ سے (دین لے کر) لوگوں تک پہنچا دو چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح البخاری: 3461)

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایک کافر سے مناظرہ قرآن مجید میں مذکورہے۔ (سورۃ البقرۃ: 258)

مستدرک الحاکم (2/ 593۔594 ح 4157) میں نجران کے عیسائیوں کا نبی ﷺ سے بحث و مباحثہ مذکور ہے۔ وصححہ الحاکم علی شرط مسلم ووافقہ الذہبی

صحیح بخاری میں ایک فقہی مسئلے پر سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہما کا مناظرہ موجودہے۔ (345، 346)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا خوارج سے مناظرہ کرنا ثابت ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 8/ 179 وسندہ حسن)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

’’فکل لم یناظر أھل الالحاد والبدع مناظرۃ تقطع دابرھم، لم یکن أعطی الإسلام حقہ ولاوفی بموجب العلم والإیمان ولا حصل بکلامہ شفاء الصدور وطمأنینۃ النفوس ولا أفاد کلامہ العلم والیقین‘‘

پس ہر شخص جو ملحدین و مبتدعین سے (عالم ہونے کے باوجود) بنیاد کاٹ دینے والا مناظرہ نہ کرے تو اس نے اسلام کا حق ادا نہیں کیا اور نہ علم وایمان کا تقاضا پورا کیا ہے۔ اس کے کلام سے دلوں کی شفا اور اطمینان حاصل نہیں ہوتا اور نہ اس کا کلام علم ویقین کا فائدہ دیتا ہے۔

(درء تعارض العقل والنقل ج 1 ص 357)

معلوم ہوا کہ اہلِ باطل اور لاعلم لوگوں کو کتاب و سنت کے دلائل سنا کر حق واضح کرنا دین کی بہت بڑی خدمت ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے توضیح الاحکام (ج 1 ص 107 تا 111)