دورانِ تلاوت سلام کرنا

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال: ایک شخص قرآن مجید کی تلاوت کر رہا ہے، کیا اسے سلام کہنا جائز ہے؟

الجواب:

امام اہلِ سنت ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی رحمہ اللہ (164ھ تا 241ھ) نے فرمایا:

’’ثنا عبداللہ بن یزید: أنبانا قباث بن رزین اللخمي قال: سمعت علي بن رباح اللخمي یقول: سمعت عقبۃ بن عامر الجھني یقول:

کنا جلوسًا فی المسجد نقرأ القرآن، فدخل علینا رسول اللہ ﷺ فسلّم علینا فرددنا علیہ السلام، ثم قال: ((تعلموا کتاب اللہ واقتنوہ (قال قباث: و حسبتہ قالہ: و تغنوا بہ) فوالذي نفس محمد بیدہ! لھو أشد تفلتًا من المخاض من العقل))‘‘

عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم مسجد میں بیٹھے قرآن پڑھ رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، پھر آپ نے ہمیں سلام کہا تو ہم نے سلام کا جواب دیا۔

پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی کتاب کا علم حاصل کرو اور اسے (اپنے حافظے میں) جمع کرو۔

[قباث (راوی) نے کہا: میرے خیال میں انھوں (علی بن رباح) نے یہ (جملہ بھی) کہا: اور اسے خوش الحانی سے پڑھو۔]

پس اس ذات کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے، بے شک وہ (قرآن) رسیوں میں بندھی ہوئی اونٹنی سے تیز (دل و دماغ سے) نکل جاتا ہے۔

(مسند احمد 4/ 150 ح 17490، وسندہ حسن)

یہ روایت حسن ہے۔

اسے امام ابو عبدالرحمٰن النسائی (215ھ تا 303 ھ) نے بھی احمد بن نصر (بن زیاد النیسابوری) عن عبداللہ بن یزید (ابی عبدالرحمٰن) المقرئ کی سند سے روایت کیا ہے۔ (السنن الکبریٰ للنسائی ج 5 ص 18، 19، حدیث 8035 کتاب فضائل القرآن باب 28، الامربتعلم القرآن و العمل بہ)

اب راویوں کا مختصر تعارف پڑھ لیں:

1- عبداللہ بن یزید المکی المقرئ کتبِ ستہ کے بنیادی راوی اور بالاتفاق ثقہ (یعنی قابل اعتماد) تھے۔

حافظ ابن حجر نے فرمایا: ’’ثقۃ فاضل، أقرأ القرآن نیفًا و سبعین سنۃ مات سنۃ ثلاث عشرۃ وقد قارب المائۃ وھو من کبار شیوخ البخاري‘‘ وہ ثقہ فاضل تھے۔ انھوں نے ستر سال سے کچھ زیادہ (لوگوں کو) قرآن پڑھایا ہے۔ آپ 213ھ میں تقریباً سو سال کی عمر میں فوت ہو ئے۔ آپ امام بخاری کے بڑے اساتذہ میں سے تھے۔ (تقریب التہذیب مع التعقیب ص 287ت 3715)

2- قباث بن رزین ’’صدوق مقرئ‘‘ یعنی سچے قارئ قرآن تھے۔ (تقریب التہذیب ص 422 ت 5508)

انھیں ابن حبان نے ثقہ، ابو حاتم الرازی نے ’’لابأس بحدیثہ‘‘ اور احمد بن حنبل نے ’’لابأس بہ‘‘ قرار دیا ہے۔ (تہذیب الکمال ج 15 ص 208)

3- علی بن رباح اللخمی، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی اور ’’ثقہ‘‘ تھے۔ (التقریب ص 271)

امام بخاری نے الادب المفرد اور خلق افعال العباد میں ان سے روایت لی ہے۔

4- عقبہ بن عامر مشہور (جلیل القدر) صحابی اور ’’فقیہ فاضل‘‘ تھے۔ (التقریب:4641)

قباث کی وجہ سے یہ سند حسن لذاتہ ہے۔

شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے کہا: ’’ہذا إسناد صحیح‘‘ یعنی یہ سند صحیح ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 7/ 847 ح 3285)

یہ سلسلۂ صحیحہ کی آخری جلد ہے جو تین جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور حدیث نمبر 4035 پر ختم ہو گئی ہے۔ اس کے آخر میں لکھا ہوا ہے کہ ’’ھذا آخر ما حققہ الشیخ من ھذہ ’’السلسلۃ‘‘ المبارکۃ إن شاء اللہ وکان ذلک أواخر شھر جمادی الأولٰی عام 1420ھ‘‘ (الصحیحۃ ج 7 ص 1741)

اس کے بعد شیخ البانی فوت ہوگئے۔ رحمہ اللہ

روایتِ مذکورہ سے درج ذیل مسائل ثابت ہوتے ہیں:

1: قرآن پڑھنے والے کو سلام کہنا جائز ہے۔

2: قرآن مجید پڑھنے والا، اس سلام کا جواب دے گا۔

3: قرآن مجید کا علم حاصل کرنا، اسے یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا چاہئے، حدیثِ مذکور کے راویوں نے قراءت قرآن کا علم حاصل کر کے اس کی تعلیم دی ہے۔ رحمہم اللہ تعالیٰ

4: قرآن، خوش الحانی اور اصولِ تجوید و قراءت کے مطابق پڑھنا چاہئے۔

’’وتغنوا بہ‘‘ کے الفاظ، اس روایت کی بعض دوسری اسانید میں بغیر شک کے مروی ہیں اور شواہد کے ساتھ بالکل صحیح ہیں۔

5: یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ (ج 10 ص 477 ح 29982) صحیح ابن حبان (مواردالظمان حدیث نمبر 1788) وغیرہما میں اختصار کے ساتھ مروی ہے جو کہ چنداں مضر نہیں ہے۔ حدیث اگر ایک جگہ مختصر اور دوسری جگہ طویل و مفصل مروی ہو تو یہ ضعف کی دلیل نہیں ہوا کرتی بشرطیکہ سند صحیح یا حسن ہو۔

6: یہاں پر ایک بات بطورِ فائدہ عرض ہے کہ مسند احمد میں ’’حدثنا عبداللہ: حدثني أبي‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ’’حدثنا عبداللہ بن أحمد بن حنبل: حدثني أبي أحمد ابن حنبل‘‘ امام احمد بن حنبل، زوائد کو چھوڑ کر اس کتاب ’’المسند‘‘ کے مصنف ہیں اور عبداللہ بن احمد، ان کے بیٹے، ان سے اس کتاب کے راوی ہیں لہٰذ امسند احمد کی غیر زوائد والی روایات ’’حدثني أبي‘‘ کے بعد سے شروع ہوتی ہیں۔

7: بعض لوگ کہتے ہیں کہ کھانا کھانے والوں کو سلام نہیں کہنا چاہئے (!) حالانکہ میرے علم کے مطابق اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ جب نمازی اور قارئ قرآن کو سلام کہنا جائز ہے تو کھانا کھانے والے کو سلام کرنا کس طرح ناجائز ہے؟

8: مسجد میں دخول کے وقت لوگوں کو سلام کہنا مسنون ہے۔

9: نمازی کو حالتِ نماز میں بھی باہر سے آنے والا سلام کہہ سکتا ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ نماز پڑھ رہے تھے تو جابر (بن عبداللہ الانصاری) رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کہا۔ آپ نے (زبان کے بجائے) اشارے سے جواب دیا۔ (دیکھئے صحیح مسلم کتاب المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلوٰۃ ونسخ ماکان من اباحتہ ح 540/ 36)

رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اسی پر عمل تھا۔

نافع (مولیٰ عبداللہ بن عمر، مشہور تابعی) سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نمازی کو سلام کہا تو اس نے (لاعلمی کی وجہ سے) زبان سے جواب دے دیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’إذا سلّم علی أحدکم وھو یصلّي فلا یتکلم ولکن یشیر بیدہ‘‘ جب تم میں سے کسی کو حالتِ نماز میں سلام کہا جائے تو وہ زبان سے جواب نہ دے بلکہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 74، السنن الکبریٰ للبیہقی ج 2 ص 259 واللفظ لہ، و سندہ صحیح)

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔ مصنف عبد الرزاق وغیرہ میں دیگر آثار بھی ہیں جن کی طرف راقم الحروف نے نیل المقصود فی التعلیق علیٰ سنن ابی داود (مخطوط ج 1 ص 296 ح 927) میں اشارہ کر دیا ہے۔

10: قرآن مجید حفظ کرنے والے طالب علموں کو چاہئے کہ حفظ پر خوب محنت کریں۔ سبق، سبقی اور منزل کا خاص خیال رکھیں۔ اگر ہو سکے تو چھٹی والے دن، گزشہ ہفتے کی ساری منزل، زبانی پڑھ لیں یا کسی کو سنا دیں، ورنہ یاد رکھیں کہ قرآن مجید، کثرتِ مراجعت کے بغیر جلدی بھول جاتا ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (ج 1 ص 488 تا 491) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ