دعاء کے فضائل و مسائل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


دعا کا لفظی معنی پکارنا اور بُلانا ہے۔

1) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیؔ اَسْتَجِبْ لَکُمْ - اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ﴾

اور تمھارے رب نے کہا: مجھ سے دعا مانگو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت (دعا) سے تکبر کرتے ہیں تو وہ ذلیل و رُسوا ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

(المؤمن: 60)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ﴾

جب دعا کرنے والا دعا کرتا ہے تو میں اُس کی دعا قبول کرتا ہوں، لہٰذا مجھ سے (ہی) دعا مانگو۔

(البقرہ: 186)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((الدعاء ھي العبادۃ))

دعا عبادت ہی ہے۔

(سنن ابی داود: 1479، وسندہ صحیح وصححہ الترمذی: 2969 و ابن حبان: 2396 والحاکم 1/ 490۔491 ووافقہ الذہبی، ولفظ الترمذی: الدعاء ھو العبادۃ)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إذا سألتَ فاسأل اللہ و إذا استعنتَ فاستعن باللہ))

جب تُو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر (یعنی اللہ سے دعا مانگ) اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ۔

(سنن الترمذی: 2516 وقال: ’’ھذا حدیث حسن صحیح‘‘ وسندہ حسن و أوردہ الضیاء فی المختارۃ 10 /22۔26 ح 12)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

تم میں سے ہر آدمی اپنے رب سے ہی ہر حاجت (دعا) مانگے، حتیٰ کہ جوتے کا تسمہ اگر ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ ہی سے مانگے۔

(سنن الترمذی: 8/ 3604 وسندہ حسن، وصححہ ابن حبان، الاحسان: 863، 891۔892)

ثابت ہوا کہ اپنی تمام مصیبتوں، بیماریوں، ضرورتوں اور حاجات میں صرف ایک اللہ سے ہی دعا مانگنی چاہئے۔

2) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

جو مسلم (مسلمان) دعا کرتا ہے، جس میں گناہ یا قطع رحمی نہیں ہوتی تو اسے تین چیزیں دی جاتی ہیں:

1- یا تو اس کی دعا جلدی قبول کر لی جاتی ہے،

2- یا اس دعا کو اس کے لئے قیامت کا ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے،

3- یا اُس سے کسی مصیبت کو ٹال دیا جاتا ہے۔

(الادب المفرد للبخاری: 710 وسندہ حسن)

3) اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور نبی ﷺ پر درود پڑھنے کے بعد مانگی ہوئی دعا قبول ہوتی ہے۔

دیکھئے سنن الترمذی (593 وقال: ’’حسن صحیح‘‘ وسندہ حسن، میری کتاب: فضائل درود و سلام ص 28 فقرہ: 19)

4) دعا میں ہاتھ اُٹھانا، یعنی ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا بہت سی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

مثلاً دیکھئے صحیح بخاری (4323، 4339، 6341) وصحیح مسلم (2498) وغیرہما۔

5) دعا میں چہرے پر ہاتھ پھیرنا بالکل صحیح ہے۔

ثقہ تابعی امام ابو نعیم وہب بن کیسان نے فرمایا:

میں نے (سیدنا) ابن عمر اور ابن زبیر (رضی اللہ عنہما ) کو دیکھا، وہ دونوں دعا کرتے، اپنی دونوں ہتھیلیاں (اپنے) چہرے پر پھیرتے تھے۔

(الادب المفرد: 609 وسندہ حسن، میری کتاب: ہدیۃ المسلمین ح 22)

اس روایت پر بعض الناس کی جرح جمہور کی توثیق کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

امام معمربن راشد رحمہ اللہ (متوفی 154ھ) دعا میں سینے تک ہاتھ اُٹھاتے اور پھر اپنے چہرے پر پھیرتے تھے۔ (مصنف عبدالرزاق 3/ 123 ح 5003 وسندہ صحیح)

امام اسحاق بن راہویہ ان احادیث (جن میں چہرے پر ہاتھ پھیرنے کا ذکر ہے) پر عمل کرنا مستحسن سمجھتے تھے۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی ص 304)

6) رات کے آخری حصے میں دعا قبول کی جاتی ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (1145) وصحیح مسلم (758)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اذان اور اقامت کے دوران میں دعا رد نہیں ہوتی، لہٰذا دعا مانگو۔

(صحیح ابن خزیمہ: 427 وسندہ صحیح)

بندہ جب سجدے میں ہو تو وہ اپنے رب کے بہت قریب ہوتا ہے، لہٰذا سجدہ میں کثرت سے دعا مانگیں۔ (دیکھئے صحیح مسلم: 482)

جمعہ کے دن خطبے سے نماز کے اختتام تک کے درمیانی وقت میں دعا قبول ہوتی ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم: 853)

جمعہ کے دن آخری گھڑی (یعنی عصر کے بعد مغرب تک) میں دعا قبول ہوتی ہے۔ دیکھئے موطأ امام مالک (بتحقیقی 1/ 108۔109 ح 239، وروایۃ ابن القاسم: ح 515) سنن ابی داود (1046) اور سنن الترمذی (491 وقال: ’’حسن صحیح‘‘)

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (ج 4 ص 567 تا 569) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ