ایک مشت سے زیادہ داڑھی کاٹنا؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


جن احادیث میں داڑھیاں چھوڑنے، معاف کرنے اور بڑھانے کا حکم دیا گیاہے، ان کے راویوں میں سے ایک راوی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ دیکھئے صحیح البخاری (5892، 5893) وصحیح مسلم (259)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ وہ حج اور عمرے کے وقت اپنی داڑھی کا کچھ حصہ (ایک مشت سے زیادہ کو) کاٹ دیتے تھے۔ دیکھئے صحیح البخاری (5892) وسنن ابی داود (2357) وسندہ حسن وحسنہ الدارقطنی 2/ 182 وصححہ الحاکم 1/ 422 ووافقہ الذہبی)

کسی صحابی سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ پر اس سلسلے میں انکار ثابت نہیں ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ جیسے متبع سنت صحابی، نبی ﷺ سے ایک حدیث سنیں اور پھر خود ہی اس کی مخالفت بھی کریں۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:

’’والأخذ من الشارب والأظفار واللحیۃ‘‘

مونچھوں، ناخنوں اور داڑھی میں سے کاٹنا۔

(مصنف ابن ابی شیبہ 4/ 85 ح 15668 وسندہ صحیح، تفسیر ابن جریر 17/ 109 وسندہ صحیح)

محمد بن کعب القرظی (تابعی، ثقہ عالم) بھی حج میں داڑھی سے کچھ کاٹنے کے قائل تھے۔ (تفسیر ابن جریر 17/ 109 وسندہ حسن)

ابن جریج بھی اس کے قائل تھے۔ (تفسیر طبری 17/ 110 وسندہ صحیح)

ابراہیم (نخعی) رخساروں کے بال کاٹتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 8/ 375 ح25473 وسندہ صحیح)

قاسم بن محمد بن ابی بکر بھی جب سر منڈاتے تو اپنی مونچھوں اور داڑھی کے بال کاٹتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ:ح 25476 وسندہ صحیح)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 8/ 375 ح 25479 وسندہ حسن)

اس کے راوی عمر و بن ایوب کو ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے (7/ 224، 225) اور اس سے شعبہ بن الحجاج نے روایت لی ہے۔ شعبہ کے بارے میں یہ عمومی قاعدہ ہے کہ وہ (عام طور پر) اپنے نزدیک ثقہ راوی سے ہی روایت کرتے تھے۔ دیکھئے تہذیب التہذیب (1/ 4، 5)اس عمومی قاعدے سے صرف وہی راوی مستثنیٰ ہوگا جس کے بارے میں صراحت ثابت ہوجائے یا جمہورمحدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہو۔

ان دو توثیقات کی وجہ سے عمر و بن ایوب حسن درجے کا راوی قرار پاتا ہے۔

طاوس (تابعی) بھی داڑھی میں سے کاٹنے کے قائل تھے۔ (الترجل للخلال:96 وسندہ صحیح، ہارون ھو ابن یوسف بن ہارون بن زیاد الشطوی) امام احمد بن حنبل بھی اسی جواز کے قائل تھے۔ (کتاب الترجل:92)

ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کاٹنا اور رخساروں کے بال لینا جائز ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ داڑھی کو بالکل قینچی نہ لگائی جائے۔ واللہ اعلم

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ صحابی کا عمل دلیل ہے یا نہیں؟ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کا کون سا فہم معتبر ہے۔ وہ فہم جو چودھویں پندرھویں صدی ہجری کا ایک عالم پیش کر رہا ہے یا وہ فہم یا جو صحابہ، تابعین و تبع تابعین اور محدثین کرام سے ثابت ہے۔؟!

ہم تو وہی فہم مانتے ہیں جو صحابہ، تابعین، تبع تابعین و محدثین اور قابلِ اعتماد علمائے امت سے ثابت ہے۔ ہمارے علم کے مطابق کسی ایک صحابی، تابعی، تبع تابعی، محدث یا معتبر عالم نے ایک مٹھی سے زیادہ داڑھی کو کاٹنا حرام یا ناجائز نہیں قرار دیا۔

حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’خلاصہ یہ ہے ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں کیونکہ وہ لغت اور اصطلاحات سے غافل نہ تھے……‘‘

(فتاویٰ اہل حدیث ج 1 ص 111)

اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 27 صفحہ 57 اور 58)