حق کی طرف رجوع

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


تبع تابعی امام سعید بن ابی بردہ بن ابی موسیٰ الاشعری رحمہ اللہ نے اپنے دادا سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کے نام سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خط نکالا، جس میں لکھا ہوا تھا:

’’لا یمنعک قضاء قضیتہ بالأمس راجعت فیہ نفسک وھدیت فیہ لرشدک أن تراجع الحق فإن الحق قدیم و إن الحق لا یبطلہ شئ و مراجعۃ الحق خیر من التمادي فی الباطل‘‘

تم نے کل جو فیصلہ کیا تھا اگر (آج) اس میں نظر ثانی کر لی اور صحیح کی طرف تمھاری راہنمائی ہو گئی تو حق کی طرف رجوع کرنے سے کبھی نہ رُکنا کیونکہ حق قدیم ہے، اسے کوئی چیز باطل نہیں کرتی اور باطل میں ضد جھگڑے سے حق کی طرف رجوع کرنے میں خیر ہے۔

(سنن الدارقطنی 4/ 207 ح 4426، اخبار القضاۃ لمحمد بن خلف بن حیان 1/ 71، 72)

اس سُچے موتی اور فاروقی کلام کی سند سعید بن ابی بردہ تک صحیح ہے، ان کے شاگرد ادریس بن یزید بن عبدالرحمٰن الاودی ثقہ تھے۔ دیکھئے التقریب (296)

سعید کے پاس وہ کتا ب یعنی خط تھا جو سیدنا عمر نے سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہما کی طرف بھیجا تھا، جسے سعید نے (اپنے والد ابو بردہ رحمہ اللہ سے) حاصل کیا تھا اور کتاب سے روایت و جادہ ہونے کی وجہ سے صحیح و حجت ہے۔ دیکھئے مسند الفاروق لابن کثیر (2/ 546، 547)

حافظ ابن القیم فرماتے ہیں: یہ کتاب جلیل الشان ہے، اسے علماء کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔ (اعلام الموقعین ص 77، فصل: النوع الرابع من أنواع الرائ المحمود)

یہی وہ بنیادی منہج ہے جس پر ہم ہر وقت رواں دواں ہیں اور ماہنامہ الحدیث حضرو کے صفحات اس پر گواہ ہیں۔ امام ابوحنیفہ کے بارے میں ملا مرغینانی نے بار بار لکھا ہے کہ فلاں مسئلے سے امام صاحب نے رجوع کر لیا تھا۔ مثلاً دیکھئے الہدایہ (ج 1ص 61)

شیخ البانی رحمہ اللہ کے رجوع اور تراجعات والی کتاب ایک یا دو جلدوں میں چھپی ہوئی ہے۔

خوش نصیب ہے وہ جو اپنی غلطی معلوم ہو جانے کے بعد حق کی طرف لوٹ آئے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 50) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ