امام ابوبکر بن ابی داود السجستانی رحمہ اللہ کا عظیم الشان حافظہ

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


اللہ تعالیٰ نے امام ابوبکر بن ابی داود السجستانی رحمہ اللہ کو عظیم الشان حافظہ عطا فرمایا تھا۔

احمد بن ابراہیم بن شاذان (ثقہ) سے روایت ہے کہ:

ابوبکر بن ابی داود عمرو بن اللیث کے دَور میں سجستان (اصبہان) گئے تو اصحابِ حدیث ان کے پاس اکٹھے ہو گئے اور کہا کہ انھیں حدیثیں بیان کریں۔

ابن ابی داود نے انکار کر دیا اور کہا: میرے پاس کتاب نہیں ہے۔

انھوں نے کہا: ابن ابی داود ہوں اور کتاب؟

ابوبکر بن ابی داود نے کہا: پس انھوں نے جوش دلا کر مجھے مجبور کر دیا تو میں نے اپنے حافظے سے انھیں تیس ہزار حدیثیں سنائیں۔

جب میں بغداد آیا تو بغدادیوں نے کہا: ابن ابی داود سجستان (اصبہان) گئے اور لوگوں کے ساتھ تماشا کر دیا (یعنی بیوقوف بنا دیا)

پھر چھ دینار کے ذریعے سے انھوں نے سجستان کی طرف ایک تیز قافلہ روانہ کیا تاکہ (ابن ابی داود کی لکھائی ہوئی حدیثوں کا) نسخہ لکھ لائیں۔

پس وہ لکھا گیا اور بغداد لایا گیا اور حفاظِ حدیث کے سامنے پیش کیا گیا۔

تو انھوں نے مجھ پر چھ روایات میں غلطی کا الزام لگایا۔

ان میں سے تین روایات اسی طرح تھیں جس طرح میں نے اپنے استادوں سے سنی تھیں۔

اور تین روایات میں مجھے غلطی لگی تھی۔

(تاریخ بغداد 9/ 466 وسندہ صحیح، تاریخ دمشق 29/ 83)

سبحان اللہ! حافظے سے تیس ہزار روایتیں بیان کیں اور صرف تین روایتوں کی سند میں غلطی لگی۔ یہ بے پناہ حافظے کی دلیل ہے!

عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ قرآن کے مستند ومتقن حافظ کو بھی بعض اوقات قرأتِ قرآن میں غلطی لگ جاتی ہے، لہٰذا ہزار احادیث میں سے صرف ایک کی سند میں غلطی لگ جانا اس کی دلیل ہے کہ ابن ابی داود بہت بڑے حافظِ حدیث تھے۔ رحمہ اللہ

امام ابو حفص ابن شاہین رحمہ اللہ (متوفی 385ھ) نے فرمایا:

’’أملی علینا ابن أبي داود نحوالعشرین سنۃ، ما رأیت بیدہ کتابًا، إنما کان یُملي حفظًا‘‘

ابن ابی داود نے ہمیں بیس سال کے قریب حدیثیں لکھائیں، میں نے آپ کے ہاتھ میں کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی، وہ تو صرف حافظے سے (زبانی) حدیثیں لکھاتے تھے۔

(تاریخ دمشق 29/ 83 وسندہ صحیح)

ابن شاہین نے کہا:

جب ابن ابی داود (آخر میں) نابینا ہو گئے تو منبر پر بیٹھتے اور ان کا بیٹا ابو معمر ان سے ایک درجہ نیچے بیٹھ جاتا۔

اس کے ہاتھ میں کتاب ہوتی تھی، وہ کہتا: فلاں حدیث، تو وہ پوری حدیث (مع سند و متن) پڑھ لیتے تھے۔

انھوں نے ایک دن قنوت (یا فتون) والی (لمبی) حدیث زبانی سنا دی تو ابو تمام الزینبی نے کھڑے ہو کر کہا: اللہ کی قسم! میں نے آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا اِلا یہ کہ ابراہیم الحربی ہوں۔ الخ

(تاریخ دمشق 29/ 83 وسندہ صحیح)

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 4 صفحہ 387 تا 389)