کیا کتوں کا بیچنا جائز ہے؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کتے کی قیمت حلال نہیں ہے۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص کتے کی قیمت لینے آئے تو اس کے ہاتھوں کو مٹی سے بھر دو۔

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بھی کتے اور بلی کی قیمت کو ناجائز سمجھتے تھے۔

جن روایات میں بعض کتوں کا بیچنا جائز قرار دیاگیا ہے وہ ساری کی ساری ضعیف و مردود ہیں۔

کتے کی قیمت حرام و خبیث ہونے کے مقابلے میں بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتابیچنا جائز ہے، بلکہ بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتا ذبح کر کے اس کا گوشت بیچنا جائز ہے۔ یہ سارے اقوال صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔

موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر 57:

مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ عَنْ أَبِي بَکْرِ بنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بنِ الحَارِثِ بْنِ ھِشَامٍ عَنْ أَبِيْ مَسْعُوْدٍ الأَنْصَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَھَی عَنْ ثَمَنِ الکَلْبِ وَمَھْرِ البَغْيِ وَحُلْوانِ الکَاھِنِ۔

(سیدنا) ابو مسعود (عقبہ بن عمرو) الانصاری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت سے، زانیہ کی خرچی سے اور کاہن (نجومی) کی مٹھائی سے منع فرمایا ہے۔

تحقیق: صحیح

وصرح ابن شہاب بالسماع عند الحمیدی (بتحقیقی:451)

تخریج: متفق علیہ

الموطأ (روایۃ یحییٰ 2/ 656 ح 1400، ک 31 ب 29 ح 68) التمہید 8/ 397، الاستذکار: 1321

٭ وأخرجہ البخاری (2237) ومسلم (1567) من حدیث مالک بہ۔

تفقہ:

یہ حدیث ان لوگوں کا زبردست رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کتا بیچنا جائز ہے۔!

اس پر اجماع ہے کہ زانیہ کی خرچی اور کاہن کی مٹھائی حرام ہے۔ (التمہید 8/ 398)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((ثمن الکلب خبیث ومھر البغي خبیث وکسب الحجام خبیث))

کتے کی قیمت خبیث ہے اور زانیہ کی خرچی خبیث ہے اور حجام کی کمائی خبیث ہے۔

(صحیح مسلم: 41/ 1568 [4012])

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لایحل ثمن الکلب))

کتے کی قیمت حلال نہیں ہے۔

(سنن ابی داود: 3484 وسندہ حسن)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ:

اگر کوئی شخص کتے کی قیمت لینے آئے تو اس کے ہاتھوں کو مٹی سے بھر دو۔

(سنن ابی داود: 3482 وسندہ صحیح)

جن روایات میں بعض کتوں کا بیچنا جائز قرار دیاگیا ہے وہ ساری کی ساری ضعیف و مردود ہیں۔ مثلاً:

’’عن جابر أن النبي ﷺ نہی عن ثمن السنور والکلب إلا کلب صید‘‘

(سنن النسائی 7/191 ح 4300 وقال: لیس ھو بصحیح 7/309 ح 4672 وقال: ’’ھٰذا منکر‘‘)

یہ روایت ابو الزبیر محمد بن مسلم بن تدرس کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابو الزبیر مشہور مدلس تھے۔ (دیکھئے الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ص 61، 62 رقم 3/ 101)

’’عن أبي ہریرۃ نھی عن مھر البغي وعسب الفحل وعن ثمن السنور وعن الکلب إلا کلب صید‘‘

(السنن الکبریٰ للبیہقی 6/6)

یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:

1- محمد بن یحییٰ بن مالک الضبی کی توثیق نامعلوم ہے۔

2- حماد بن سلمہ اور قیس بن سعد دونوں ثقہ ہیں لیکن حماد کی قیس سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ قال البیہقی: ’’وروایۃ حماد عن قیس فیھا نظر‘‘ (ایضاً 6/6)

حماد بن سلمہ عن قیس بن سعد والی یہی روایت صحیح ابن حبان میں موجود ہے لیکن اس میں کتا بیچنے کی اجازت نہیں بلکہ لکھا ہوا ہے کہ:

’’إنّ مھر البغي وثمن الکلب والسنور وکسب الحجام من السحت‘‘

(الاحسان7/ 217 ح 4920)

سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے کتے اور بلی کی قیمت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:

’’زجر النبي ﷺ عن ذلک‘‘

نبی ﷺ نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔

(صحیح مسلم: 42/1569 [4015])

اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بھی کتے اور بلی کی قیمت کو ناجائز سمجھتے تھے۔

سنن دارقطنی (3/ 72، 73 ح 3045، 3046، 3047) میں بعض روایتیں مروی ہیں جن سے بعض کتوں کی فروخت کا جواز معلوم ہوتا ہے لیکن یہ ساری روایتیں ضعیف و مردود ہیں اور ان میں سے بعض کے راویوں کو خود امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیاہے۔

آلِ تقلید کی پیش کردہ بعض مزید روایات کی تحقیق درج ذیل ہے:

’’أبو حنیفۃ عن الہیثم عن عکرمۃ عن ابن عباس قال: رخص رسول اللہ ﷺ في ثمن کلب الصید‘‘

(مسند ابی حنیفہ روایۃ الحصکفی ص 169، اردو مترجم ص 319، جامع المسانید للخوارزمی 2/ 10، 11)

مسند الحصکفی (متوفی 650 ھ) کا ایک سابق راوی ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی تھا۔ (اردو مترجم ص 24 مسند الحصکفی ص 27)

عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی محدثینِ کرام کے نزدیک سخت مجروح ہے۔ ابو زرعہ احمد بن الحسین الرازی نے کہا: ’’ضعیف‘‘ (سوالات حمزہ بن یوسف السہمی: 318)

ابو احمدالحافظ اور حاکم نیشاپوری نے کہا: ’’الأستاذ ینسج الحدیث‘‘ یہ استاد تھا، حدیث بناتا تھا۔ (کتاب القراءت خلف الامام للبیہقی ص178 ح 388)

یعنی یہ شخص حدیثیں گھڑنے میں پورا استاد تھا۔ اس پر خطیب بغدادی، خلیلی، ابن جوزی اور حافظ ذہبی وغیرہ نے جرح کی ہے۔ (تاریخ بغداد 10/ 126 ت 5262، الارشاد للخلیلی، 3/972 ت 899، کتاب الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی 2/ 141، دیوان الضعفاء للذہبی 2/ 63 ت 2297)

نیز دیکھئے میزان الاعتدال (2/ 496) ولسان المیزان (3/ 348، 349)

اس کی توثیق کسی قابلِ اعتماد محدث سے ثابت نہیں ہے۔

جامع المسانید للخوارزمی کی سندوں کاجائزہ درج ذیل ہے:

1- خوارزمی بذاتِ خود غیر موثق ومجہول التوثیق ہے۔

2- ابو محمد البخاری الحارثی کذاب ہے۔ کما تقدم

3- احمد بن محمد بن سعید عرف ابن عقدہ جمہور محدثین کے نزدیک مجروح راوی ہے۔ امام دارقطنی نے اس کی تعریف کے باوجود فرمایا کہ یہ خراب آدمی یعنی رافضی تھا۔ (تاریخ بغداد 5/ 22 ت 2365 وسندہ صحیح)

اور فرمایا: یہ منکر روایتیں کثرت سے بیان کرتا تھا۔ (ایضاً وسندہ صحیح)

ابو عمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا البغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ شخص جامع براثا میں صحابۂ کرام یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما وغیرہما پر تنقیدیں لکھوایا کرتا تھا لہٰذا میں نے اس کی حدیث کو ترک کر دیا۔ (سوالات حمزۃ السہمی: 166، وسندہ صحیح)

یہ (ابن عقدہ) چور بھی تھا، اس نے عثمان بن سعید المری کے بیٹے کے گھر سے کتابیں چُرا لی تھیں۔ (الکامل فی الضعفاء لابن عدی 1/209 وسندہ صحیح، محمد بن الحسین بن مکرم البغدادی ثقۃ وثقہ الدارقطنی وغیرہ)

معلوم ہوا کہ ابن عقدہ چور، ساقط العدالت اور رافضی تھا۔

4- احمد بن عبداللہ بن محمد الکندی اللجلاج نے امام ابو حنیفہ کے لئے منکرحدیثیں بیان کی ہیں۔ (الکامل لابن عدی 1/ 197)

امام ابو حنیفہ ایسی منکر حدیثوں کے محتاج نہیں ہیں۔ والحمدللہ

احمد بن عبداللہ الکندی کی اس کتے والی روایت کو حافظ عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ نے باطل حدیث قرار دیا ہے۔ (الاحکام الوسطیٰ 3/ 249، 248، لسان المیزان 1/ 199)

5- محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی کے بارے میں اسماء الرجال کے امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: ’’لیس بشئ‘‘ وہ کچھ چیز نہیں ہے۔ (تاریخ ابن معین: 1770)

امام ابن معین نے مزید فرمایا: ’’جھمي کذاب‘‘ محمدبن الحسن الشیبانی جہمی کذاب ہے۔ (کتاب الضعفاء للعقیلی 4/ 52 وسندہ صحیح)

دوسری سندمیں احمد بن عبداللہ الکندی اور محمد بن الحسن الشیبانی دونوں مجروح ہیں اور الحسن بن الحسین الانطاکی نامعلوم ہے۔ تیسری سند میں ابن عقدہ چور، عبداللہ بن محمد البخاری کذاب اور احمد بن عبداللہ الکندی و محمد بن الحسن دونوں مجروح ہیں۔ چوتھی سند میں حسین بن محمدبن خسرو البلخی، الحسین بن الحسین انطاکی (؟) احمد بن عبداللہ اور محمد بن الحسن مجروح ہیں۔ پانچویں سند میں ابن خسرو، حسین بن حسین، احمد بن عبداللہ الکندی اور محمد بن الحسن ہیں۔ چھٹی اور آخری سندمیں ابن خسرو معتزلی مجروح ہے۔ دیکھئے لسان المیزان (2/ 312) وسیر اعلام النبلاء (19/ 592) قاضی ابو نصر بن اشکاب اور عبداللہ بن طاہر نامعلوم اور محمدبن الحسن الشیبانی مجروح ہے۔

خلاصۃ التحقیق: یہ روایت باطل و مردود ہے اور امام ابو حنیفہ سے ثابت ہی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ بعض کتوں کی فروخت کے جواز والی سب روایتیں ضعیف و مردود ہیں۔

کتے کی قیمت حرام و خبیث ہونے کے مقابلے میں بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتابیچنا جائز ہے۔ دیکھئے الہدایہ للمرغینانی (2/ 101، واللفظ لہ، 3/ 79) القدوری (ص74 قبل باب الصرف) فتح القدیر لابن ہمام (6/ 345) بدائع الصنائع (5/ 142) کنز الدقائق (ص257) البحر الرائق (6/ 172) الدرالمختار مع کشف الاستار (2/ 50) رد المحتار المعروف بفتاویٰ شامی (4/ 238، 239) حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار (3/ 127) کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ (2/ 232) اور الفقہ الاسلامی وادلتہ (4/ 446) وغیرہ، بلکہ بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتا ذبح کر کے اس کا گوشت بیچنا جائز ہے۔ دیکھئے فتاویٰ عالمگیری (3/ 115)! یہ سارے اقوال صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔

ملا مرغینانی نے لکھا ہے کہ:

’’وإذا ذبح مالا یؤکل لحمہ طھر جلدہ ولحمہ إلا الآدمي والخنزیر‘‘

آدمی اور خنزیر کے علاوہ جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا، اسے ذبح کرنے سے اس کا گوشت اور چمڑا پاک ہوجاتا ہے۔

(الہدایہ 2/ 441 دوسرا نسخہ4/ 69)

یہ فتویٰ بھی بلا دلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث 57 صفحہ 132 تا 135