اتباعِ سنت ہی میں نجات ہے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوۃ المصابیح، حدیث نمبر 140:

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ((مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ ۔))مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔

(سیدہ) عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے حکم (دین) میں ایسی بات نکالی جو اس میں موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔ متفق علیہ

صحیح بخاری (2697) صحیح مسلم (17/ 1718)۔

فقہ الحدیث:

1- دین میں ہر وہ نئی بات جو قرآن، حدیث، اجماع اور آثارِ سلف صالحین سے ثابت نہیں بدعت کہلاتی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے جیسا کہ آنے والی حدیث (141) میں ہے۔

2- ایک طویل روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مسجد میں حلقوں کی صورت میں کنکریوں پر سو دفعہ اللہ أکبر ، سو دفعہ لا إلٰہ إلا اللہ اور سو دفعہ سبحان اللہ پڑھ رہے تھے تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے انھیں اس حرکت سے منع کر دیا۔ دیکھئے سنن الدارمی (ج 1 ص 286، 287 ح 210 وسندہ حسن)

اس روایت کو سرفراز خان صفدر دیوبندی نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے راہِ سنت (ص123)

3- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ أَحْدَثَ فِی دِینِنَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ ۔))

جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔

(جزء من حدیث لوین: 69 وسندہ صحیح، شرح السنۃ للبغوی: 103، وسندہ حسن)

تنبیہ: حدیثِ لُوَیْن کا حوالہ المکتبۃ الشاملۃ سے لیا گیا ہے۔ (نیز دیکھئے جزء فیہ من حدیث لوین / مطبوع ح 71 وسندہ صحیح)

4- جو شخص کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑتا ہے اور ہر قسم کی بدعات سے دور رہتا ہے تو یہ شخص صراطِ مستقیم پر گامزن اور کامیاب ہے۔

5- مشہور تابعی امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہم سے پہلے گزرنے والے علماء فرماتے تھے کہ سنت کو مضبوطی سے پکڑنے میں نجات ہے۔ (سنن الدارمی: 97 وسندہ صحیح)

6- تابعی عبداللہ بن فیروز الدیلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مجھے پتا چلا ہے کہ دین کے خاتمے کی ابتدا ترکِ سنت سے ہو گی۔ (سنن الدارمی: 98 وسندہ صحیح)

یاد رہے کہ حجت ہونے کے لحاظ سے حدیث اور سنت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جیسا کہ سلف صالحین اور اصولِ حدیث سے ثابت ہے لہٰذا جو شخص صحیح حدیث کا تارک ہے وہ سنت کا بھی تارک ہے۔ نبی کریم ﷺ نے تارکِ سنت پر لعنت بھیجی ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی (2154، وسندہ حسن)

7- جلیل القدر تابعی امام حسان بن عطیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: جو قوم بھی اپنے دین میں کوئی بدعت نکالتی ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اُن سے سنتیں اُٹھا لیتا ہے، پھر وہ سنتیں قیامت تک اُن کے پاس واپس نہیں آتیں۔ (سنن الدارمی: 99 وسندہ صحیح)

8- مشہور جلیل القدر تابعی امام اور فقیہ ابو قلابہ عبدللہ بن زید الجرمی رحمہ اللہ نے فرمایا: بدعتی لوگ گمراہ ہیں اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ جہنم میں جائیں گے۔ (سنن الدارمی: 101، وسندہ صحیح)

9- یاد رہے کہ شریعت میں بدعات کا تعلق اُن ایجادات سے ہے جن کا بغیر ادلۂ شرعیہ کے دین میں اضافہ کیا گیا ہے، رہی دنیاوی ایجادات تو ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ حدیث ((أنتم أعلم بأمر دنیا کم ۔)) تم دنیا کے معاملات زیادہ جانتے ہو۔ (صحیح مسلم: 2363، دارالسلام: 6128) کی رُو سے وہ تمام دنیاوی ایجادات جائز ہیں جن کے ذریعے سے شریعت پر کوئی زد نہیں آتی۔

10- حمص شام کے تبع تابعین میں سے ثقہ امام ابو زرعہ یحییٰ بن ابی عمر السیبانی رحمہ اللہ (متوفی 148ھ) فرماتے ہیں: یہ کہا جاتا تھا کہ بدعتی کی توبہ اللہ قبول نہیں کرتا اور (دوسری بات یہ ہے کہ) بدعتی ایک بدعت چھوڑ کر اُس سے زیادہ بُری بدعت میں داخل ہو جاتا ہے۔ (کتاب البدع والنہی عنہا: 144، وسندہ حسن)

معلوم ہوا کہ اگر کوئی بدعتی اپنی بدعت سے لوگوں کے سامنے توبہ کر لے تو پھر بھی کافی عرصے تک اسے زیرِ نگرانی رکھنا چاہئے، کیونکہ عام اہلِ بدعت کا یہی دستور ہے کہ وہ ایک بدعت سے نکل کر دوسری خطرناک بدعت سے دو چار ہو جاتے ہیں۔

اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوۃ المصابیح، حدیث نمبر 141:

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ((اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ خَیرَ الْحَدِیثِ کِتَابُ اللہِ وَخَیرَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ رضی اللہ عنہا وَشَرَّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ۔

(سیدنا) جابر (بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أما بعد! بے شک بہترین حدیث کتاب اللہ ہے اور بہترین طریقہ محمد (ﷺ ) کا طریقہ ہے۔ اعمال میں بدعت سب سے بُرا عمل ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

صحیح مسلم (43/ 867)۔

فقہ الحدیث:

1- تقریر سے پہلے (اورمسنون خطبے کے بعد) اما بعد کہنا سنت ہے۔

2- حدیثِ رسول کی طرح کتاب اللہ (قرآن) کو حدیث کہنا قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے سورۃ الزمر آیت: 23

3- اللہ تعالیٰ کے دربار میں ہر قسم کی بدعت گمراہی، باطل اور مردود ہے۔

4- جو عمل سنت سے ثابت ہو اور عوام میں جاری نہ ہو، پھر اس ثابت شدہ عمل کو دوبارہ جاری کر دیا جائے تو لغوی اعتبار سے اسے بدعت کہا جا سکتا ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول ’’نِعْمَ البِدْعَۃُ ہَذِہِ‘‘ یہ اچھی بدعت ہے۔ (صحیح بخاری:2010) کا یہی مطلب ہے لیکن جس عمل کا کتاب و سنت اور ادلۂ شرعیہ میں کوئی ثبوت ہی نہ ہو تو اسے بدعتِ حسنہ قرار دینا غلط ہے۔ شریعت میں بدعتِ حسنہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہر بدعت گمراہی ہے۔ اگرچہ (بعض) لوگ اسے اچھا سمجھتے ہوں۔ (السنۃ للمروزی: 82 وسندہ صحیح)

5- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَۃٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَی ہَدْمِ الْإِسْلَامِ))

جس نے کسی بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کے گرانے میں مدد دی۔

(الشریعۃ للآجری ص 962 ح 2040 وسندہ صحیح)

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور شیخ البانی وغیرہ کا اسے ضعیف قرار دینا غلط ہے۔

ابو الفضل عباس بن یوسف الشکلی مقبول الروایہ راوی ہیں۔ دیکھئے تاریخ الاسلام للذہبی (23/479) اور الوافی بالوفیات (16/373)

6- مشہور تابعی سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے اپنے ایک شاگرد کو ایک بدعتی کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اس کے پاس ہر گز نہ بیٹھو۔ (سنن الدارمی: 398 وسندہ صحیح)

7- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ (سنن الدارمی: 399 وسندہ حسن، وقال الترمذی [2152]: ’’حسن صحیح غریب‘‘)

8- ایک بدعتی نے امام ایوب بن ابی تمیمہ السختیانی رحمہ اللہ سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں تو انھوں نے جواب دیا: آدھی بات بھی نہیں، اور انھوں نے اس شخص سے منہ پھیر لیا۔ (سنن الدارمی: 404 وسندہ صحیح، الشریعۃ الآجری ص 963 ح 2046 وسندہ صحیح)

9- مشہور ثقہ امام زائدہ بن قدامہ رحمہ اللہ صرف اہل سنت کو حدیث پڑھاتے تھے، فرماتے ہیں: ’’نحدّث أھل السنۃ‘‘ ہم (صرف) اہل سنت کو حدیثیں سناتے ہیں۔ (تاریخ أبی زرعۃ الدمشقی: 1208، وسندہ صحیح)

10- ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اُمت میں تہتر (73) فرقے ہو جائیں گے جن میں صرف ایک جنتی ہے اور باقی سارے فرقے جہنمی ہیں۔ اسے درج ذیل صحابۂ کرام نے روایت کیا ہے:

الف: عوف بن مالک رضی اللہ عنہ (سنن ابن ماجہ: 3992 وسندہ حسن)

ب: معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (سنن أبی داود: 4597 وسندہ حسن)

ج: ابو امامہ رضی اللہ عنہ(المعجم الکبیر للطبرانی 8/321 ح 8035 وسندہ حسن، السنن الکبریٰ للبیہقی 8/ 188، و سندہ حسن)

اس آخری روایت میں فرقہ ناجیہ السواد الاعظم کو قرار دیا گیا ہے اور حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ میں الجماعۃ کا لفظ ہے، ان سب سے مراد صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی جماعتِ حقہ ہے اور یہی السواد الاعظم ہے۔ (نیز دیکھئے کتاب الشریعۃ الآجری ص 14، 15، نسخۃ أخریٰ ص 17)

خیر القرون گزر جانے کے بعد شرالقرون میں بعض مبتدعین کا اپنے آپ کو سوادِ اعظم قرار دینا اسی طرح غلط ہے جس طرح ایک صحیح العقیدہ مسلمان بہت سے گمراہوں کے اکثریتی علاقے میں رہ رہا ہو اور اکثریتی لوگ اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِیْ عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً))

اور میری اُمت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔

(سنن الترمذی: 2640 وَقَالَ: ’’حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ‘‘ وَ سَنَدُہُ حَسَنٌ وصححہ ابن حبان: 1834، والحاکم 1/128، علیٰ شرط مسلم ووافقہ الذہبی!)

یہ تینوں یا چاروں روایتیں اپنے مفہوم کے ساتھ صحیح لغیرہ ہیں بلکہ بعض علماء نے تہتر فرقوں والی حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ دیکھئے نظم المتناثر من الحدیث المتواتر للکتانی (ص57 ح 18)

فرقوں والی بعض روایات ذکر کرنے کے بعد امام ابو بکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ (متوفی 360ھ) فرماتے ہیں:

’’رَحِمَ اللَّہُ عَبْدًا حَذِرَ ہَذِہِ الْفِرَقَ، وَجَانَبَ الْبِدَعَ وَاتبع وَلَمْ یَبْتَدِعْ، وَلَزِمَ الْأَثَرَ وَطَلَبَ الطَّرِیقَ الْمُسْتَقِیمَ، وَاسْتَعَانَ بِمَوْلَاہُ الْکَرِیمِ‘‘

اللہ اس بندے پر رحم کرے جس نے ان فرقوں سے ڈرایا اور بدعات سے دُوری اختیار کی، اس نے اتباع کی اور بدعات کی پیروی نہیں کی، اس نے آثار کو لازم پکڑا اور صراطِ مستقیم طلب کی اور اپنے مولیٰ کریم (اللہ) سے مدد مانگی۔

(الشریعۃ ص 18، دوسرا نسخہ ص 20 قبل ح 30)

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 47 صفحہ 4 اور اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 140 اور 141۔