کتاب سے استفادے کے اصول

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


جب بیروت لبنان سے امام نسائی کی مشہور کتاب ’’السنن الکبریٰ‘‘ شائع ہوئی اور بعد میں ادارۂ تالیفات اشرفیہ (بیرون بوہڑ گیٹ ملتان) والوں نے اس کا فوٹو لے کر چھاپ دیا تو محمد تقی عثمانی دیوبندی صاحب نے اس کتاب پر زبردست تبصرہ فرمایا، جس سے دو اہم اقتباسات پیشِ خدمت ہیں:

اوّل:

تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے:

’’امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۰۳ ھ) ائمۂ حدیث میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

وہ حدیث کے ان چھ ائمہ میں سے ہیں جن کی کتابوں کو پوری اُمت نے ’’صحاح ستہ‘‘ کا لقب دے کر انہیں حدیث کا مستند ترین ذخیرہ قرار دیا ہے۔

اُن کی جو کتاب صحاح ستہ میں شامل ہے، اُس کا نام ’’المجتبیٰ‘‘ ہے، جو صدیوں سے حدیث کے مستند مأخذ کے طور پر پڑھی اور پڑھائی جا رہی ہے۔

لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس کتاب سے پہلے ایک اور کتاب ’’السنن الکبریٰ‘‘ کے نام سے لکھی تھی جو ’’المجتبیٰ‘‘ سے زیادہ جامع اور مفصل تھی۔

بلکہ ’’المجتبیٰ‘‘ در حقیقت ’’السنن الکبریٰ‘‘ کے انتخاب واختصار کے طور پر لکھی گئی تھی، بعد میں اس میں کچھ ایسی احادیث بھی آ گئیں جو ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں موجود نہیں ہیں۔

تاہم بحیثیتِ مجموعی ’’السنن الکبریٰ‘‘ زیادہ ضخیم، مفصل اور جامع کتاب تھی۔‘‘

(تبصرے ص ۲۹۸ مطبوعہ مکتبہ معار ف القرآن کراچی)

فائدہ: جلال الدین سیوطی نے بعض علماء سے نقل کیاہے کہ جب نسائی نے السنن الکبریٰ لکھی تو امیر رملہ کے سامنے بطورِ تحفہ پیش کی۔ امیر رملہ نے کہا: کیا اس میں ساری روایتیں صحیح ہیں؟ پھر (امام) نسائی نے اس (السنن الکبریٰ) سے المجتبیٰ نکال کر (اپنے نزدیک) صحیح روایات پیش کردیں۔ (دیکھئے الزہر الربیٰ ص ۵)

سیوطی کے اس بیان سے بھی یہی ثابت ہے کہ ’’السنن الصغریٰ للنسائی‘‘ در اصل ’’السنن الکبریٰ للنسائی‘‘ کا اختصار ہے۔

آلِ دیوبند کے ’’پیر جی سید‘‘ مشتاق علی شاہ دیوبندی نے لکھا ہے:

’’ابو عبد الرحمٰن نسائی نے سنن نسائی یعنی مجتبیٰ کو سنن کبریٰ سے منتخب کر کے مرتب کیا ہے اور خود اس امر کا اقرار کیا ہے کہ اس کی کل حدیثیں صحیح ہیں۔‘‘ (ترجمان احناف ص ۲۷۳، حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ پر اعتراضات کے جوابات ص ۱۷)

دوم:

السنن الکبریٰ للنسائی کے بارے میں تقی عثمانی صاحب نے لکھاہے:

’’لیکن اس کتاب سے استفادے کے وقت علمِ حدیث کے اُصول کے مطابق ایک اہم نکتہ ضرور ذہن نشین رہنا چاہئے، اور وہ یہ کہ حدیث کی کوئی کتاب جس میں مصنف نے اپنی سند سے احادیث روایت کی ہوں، مصنف کی طرف سے اس کی نسبت کے مستند ہونے کے لئے اَوّلاً تو یہ ضروری ہے کہ اُس مصنف سے وہ کتاب اس کے شاگردوں نے براہِ راست سن کر، پڑھ کر یا اجازت لے کر حاصل کی ہو، اور ہمارے زمانے تک اس کے روایت کرنے والوں کی سند متصل محفوظ ہو، یا پھر مصنف تک اس کتاب کی نسبت یا کم از کم شہرت و استفاضہ کی حد تک پہنچ گئی ہو، اس کے بغیر مصنف کی طرف کتاب کی نسبت محدثانہ اُصول کے مطابق مستند اور قابلِ اعتماد نہیں ہوتی۔

ہمارے زمانے میں حدیث اور سیرت و تاریخ کی بہت سی ایسی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں جو تحدیث و اجازت کے روایتی طریقے سے ہم تک نہیں پہنچیں، بلکہ ان کے قلمی نسخے قدیم کتب خانوں میں دستیاب ہوئے، اور ان کی بنیاد پر وہ کتابیں شائع ہوئیں۔ ہمارے دور میں طبقاتِ ابن سعد، صحیح ابنِ خزیمہ، معجمِ طبرانی، مسندِ ابو یعلیٰ، تاریخِ طبری وغیرہ اسی طرح شائع ہوئی ہیں۔

اگرچہ محققین نے ان کتابوں کے مختلف نسخوں کا مقابلہ کر کے اطمینان کر لیا ہے کہ یہ وہی کتابیں ہیں، لیکن محدثین کرامؒ نے حدیث کی کتابوں کے استناد کے لئے جس احتیاط سے کام لیا ہے، یہ کتابیں احتیاط کے اس اعلیٰ معیار پر پوری نہیں اُترتیں، اور ان سے استدلال و استنباط کرتے وقت یہ پہلو نظر سے اوجھل نہ رہنا چاہئے۔

زیرِ نظر کتاب بھی صدیوں نایاب رہی، اور فاضل محقق نے چار قلمی نسخوں کی بنیاد پر اسے مرتب کر کے شائع کیا ہے، ان کی محنت، عرق ریزی اور حزم و احتیاط قابلِ صد تبریک و تحسین ہے، اور یقینا اس کے ذریعے انہوں نے پوری اُمت پر احسان کیا ہے، لیکن اس بات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کتاب روایت و اجازت کے محدثانہ طریقے پر ہم تک نہیں پہنچی، لہٰذا اس کا درجۂ استناد اُن کتابوں کے مقابلے میں بہت کم ہے جو سندِ متصل کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں اور جنہیں صدیوں سے پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے۔

یہ ایک فنی نکتہ ہے جس کا بیان کرنا ضروری تھا، لیکن یقینا اس کے باجود کتاب کی قدر و قیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، اس نکتے کے باوجود یہ ایک پیش بہا نعمت ہے اور دینی مدارس کے علماء و طلبہ، مصنفین اور محققین کے لئے ایک نادر تحفہ ہے، اور کوئی علمی کتب خانہ اس سے محروم نہ رہنا چاہئے۔ (محرم الحرام ۱۴۱۳؁ھ)‘‘

(تبصرے ص ۳۰۰۔ ۳۰۱)

مذکورہ تبصرے میں تقی عثمانی صاحب نے یہ سمجھا دیا ہے کہ کتب ستہ (صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی، سنن ابی داود، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ) کے مقابلے میں ایسی کتابوں کی روایات کا کوئی اعتبار نہیں جو ہمارے زمانے تک، روایت کرنے والوں کی سند متصل سے موجود و مشہور نہیں مثلاً المدونۃ الکبریٰ اور اس جیسی دوسری کتابیں، لہٰذا اخبار الفقہاء (غیر ثابت کتاب) مسند الحمیدی (نسخہ مخرفہ) اور مسند ابی عوانہ (نسخہ مصحفہ و خطأ) سے روایات شاذہ اور خطأ و اوہام لے کر صحیحین اور سنن اربعہ ( کتب ستہ) کے خلاف پیش کرنا غلط و مردود ہے۔

فائدہ:

مراتبِ صحاح ستہ کے تحت خیر محمد جالندھری دیوبندی نے لکھا ہے:

’’پہلا مرتبہ بخاری کا ہے۔ دوسرا مسلم کا۔ تیسرا ابو داود کا۔ چوتھا نسائی کا۔ پانچواں ترمذی کا۔ چھٹا ابن ماجہ کا۔‘‘ (خیر الاصول فی حدیث الرسول ص ۷، آثارِ خیر ص ۱۲۴)

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ ۹۲ صفحہ ۳۵