رمضان کے آخری عشرے میں ہر طاق رات میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخر ی عشرے میں اعتکاف کرتے تھے حتی کہ اللہ نے آپ کی روح قبض کرلی۔ پھر آپ ﷺ کے بعد آپ کی بیویو ں نے اعتکاف کیا۔ دیکھئے صحیح البخاري: ۲۰۲۶،مسلم:۱۱۷۶/۵ من حدیث اللیث بن سعد بہ۔ [شرح السنۃ: ۱۷۳۲]

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری عشرے میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔ دیکھئے صحیح البخاري:۲۰۲۵،مسلم:۱۱۶۹ من حدیث ھشام بن عروۃ بہ۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کرتے تو اپنا سر (مسجد سے باہر نکال کر) میرے قریب کرتے میں اس میں کنگھی کرتی۔ آپ (صرف) انسانی ضرورت (قضائے حاجت) کے لیے ہی گھر میں داخل ہوتے تھے۔ دیکھئے مالک (۳۱۲/۱ وروایۃ أبي مصعب:۸۶۰) مسلم:۲۹۷ من حدیث مالک بہ۔ [السنۃ: ۱۸۳۶]

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اپنا ازار خوب باندھ لیتے۔ رات کو خود بھی جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے (بہت زیادہ عبادت کرتے تھے)۔ دیکھئے صحیح البخاري، التراویح باب العمل فی العشر الأواخر من رمضان:۲۵۲۴،مسلم، الإعتکاف باب الإجتھاد فی العشر الأواخر من رمضان: ۱۱۷۴ من حدیث سفیان بن عیینۃ بہ۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ آخری عشرے میں (عبادت میں) جتنی محنت کرتے تھے اتنی محنت دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ دیکھئے الترمذي: ۷۹۶،مسلم:۱۱۷۵ عن قتیبۃ بہ۔ [السنۃ: ۱۸۳۰]

اصل مضمون کے لئے دیکھیں کتاب ’’نبی کریم ﷺ کے لیل و نہار‘‘ حدیث ۷۰۵ تا ۷۰۹

--------------------

الاتحاف الباسم حدیث نمبر 516:

(سیدنا) ابو سعید الخدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کرتے تھے پھر ایک سال آپ نے اعتکاف کیا حتی کہ اکیسویں (21/ رمضان) کی رات ہوئی جس کی صبح آپ اعتکاف سے نکلتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے تو وہ آخری عشرے میں بھی اعتکاف کرے کیونکہ میں نے اس (قدر کی) رات کو دیکھا ہے پھر بھلا دیا گیا ہوں اور میں نے دیکھا کہ میں اس کی صبح کو پانی اور مٹی پر سجدہ کر رہا تھا لہٰذا اسے آخری عشرے میں تلاش کرو اور ہر طاق رات میں تلاش کرو۔

ابو سعید (الخدری رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اس رات بارش ہوئی اور مسجد کی چھت کھجور کی ٹہنیوں کی تھی جو ٹپکنے لگی تھی۔

ابوسعید (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: میری دونوں آنکھوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی پیشانی اور ناک پر اکیسویں (21) کی صبح کو پانی اور مٹی کا اثر تھا۔

موطا روایۃ ابن القاسم 516 وسندہ صحیح

الموطأ (روایۃ یحییٰ 1/ 319 ح 709،ک 19 ب 6ح 9) التمہید 23/ 51،الاستذکار: 658

٭ وأخرجہ البخاری (2027) من حدیث مالک بہ۔

تفقہ:

تینوں عشروں میں اعتکاف جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ آخری عشرے میں اعتکاف کیا جائے تاکہ لیلۃ القدر کی فضیلت حاصل ہو سکے۔

لیلۃ القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ دیکھئے موطا روایۃ ابن القاسم حدیث:283

اعتکاف سنت ہے۔

اعتکاف ایک عشرے سے کم مثلاً ایک دن کا بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (3144) وصحیح مسلم (1656، دارالسلام: 4294) پورا مہینہ اعتکاف بھی جائز ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں الاتحاف الباسم حدیث نمبر 516

--------------------

الاتحاف الباسم حدیث نمبر 148:

(سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رمضان میں رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا: مجھے آج رات (لیلۃ القدر) دکھائی گئی تھی حتی کہ دو آدمی جھگڑ پڑے تو اُسے اٹھا لیا گیا لہٰذا اسے نویں، ساتویں اور پانچویں (راتوں) میں تلاش کرو۔

موطا روایۃ ابن القاسم 148وسندہ صحیح

الموطأ (روایۃ یحییٰ 1/ 320 ح 713،ک19 ب 6 ح 13) التمہید 2/ 200، الاستذکار:662

٭ وأخرجہ النسائی فی السنن الکبریٰ (3396) من حدیث مالک بہ ورواہ البخاری (2023) من حدیث حمید الطویل: حدثنی أنس عن عبادۃ بن الصامت بہ وسندہ صحیح۔

تفقہ:

  1. لیلۃ القدر کے بارے میں راجح یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ یہ رات ہر رمضان میں ہوتی ہے۔

  2. مسلمانوں کا آپس میں جھگڑنا سخت نقصان کا باعث ہے اور دنیا و آخرت کے خسارے کا بھی امکان ہے اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔

  3. حافظ ابن عبدالبر نے کہا: اس باب میں آثار اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اس رات (لیلۃ القدر) کی کوئی خاص علامت نہیں ہوتی جس سے اس کی حقیقی معرفت کا یقین ہو جیسا کہ عوام کہتے ہیں۔ (التمہید 2/ 212)

    لیکن یاد رہے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اس رات کے بعد والی صبح میں سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اُس کی شعاعیں نہیں ہوتیں۔

  4. عوام میں جو مشہور ہے کہ لیلۃ القدر کو درخت سجدہ کرتے ہیں۔ وغیرہ، ان کی کوئی اصل صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں الاتحاف الباسم حدیث نمبر 148