محدثین کرام اور ضعیف + ضعیف کی مروّجہ حسن لغیرہ کا مسئلہ؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


جلیل القدر محدثین کرام نے ایسی کئی احادیث کو ضعیف وغیر ثابت قرار دیا، جن کی بہت سی سندیں ہیں اور ضعیف + ضعیف کے اُصول سے بعض علماء انھیں حسن لغیرہ بھی قرار دیتے ہیں، بلکہ بعض ان میں سے ایسی روایات بھی ہیں جو ہماری تحقیق میں حسن لذاتہ ہیں۔

اس مضمون میں ایسی دس روایات پیشِ خدمت ہیں جن پر اکابر علمائے محدثین نے جرح کی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ضعیف + ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ کو حجت نہیں سمجھتے تھے:

— نمبر 1 —

حدیث: لا وضوء لمن لم یذکر اسم اللہ علیہ

ترجمہ: جوشخص وضوپر بسم اللہ نہ پڑھے اُس کا وضونہیں ہوتا۔

اس حدیث کی چند اسانید درج ذیل ہیں:

1: عن سعیدبن زیدرضي اللہ عنہ ۔ (ترمذی:25، ابن ماجہ:398)

2: عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (ابو داود:101، ابن ماجہ:399، احمد 2/ 418 ح 9408)

3: عن أبي سعیدالخدري رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ:397، دارمی 697، احمد 3/ 41)

اس سلسلے کی مزید روایات کے لئے ابو اسحاق الحوینی کا رسالہ ’’کشف المخبوء بثبوت حدیث التسمیۃ عندالوضوء‘‘ دیکھیں اور اس رسالہ میں حوینی مذکور نے ضعیف + ضعیف والی مروّجہ حسن لغیر ہ روایت کے دفاع کی ناکام کوشش بھی کررکھی ہے۔!!

امام ابوزرعہ الدمشقی نے فرمایا:

میں نے ابو عبداللہ احمد بن حنبل (رحمہما اللہ) سے پوچھا کہ ’’لا وضوء لمن لم یذکر اسم اللہ علیہ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟

انھوں نے فرمایا: اس بارے میں احادیث قوی نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہرے او رکہنیوں تک ہاتھ دھوو، پس اللہ نے تسمیے کو واجب قرار نہیں دیا اور یہ قرآن ہے اور اس کے بارے میں سنت (حدیث) ثابت نہیں ہے۔

(تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی: 8281)

امام ابن ہانی نے کہا:

میں نے اُن (امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ) سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص وضو کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو؟

انھوں نے فرمایا:

’’یجزۂ ذلک، حدیث النبي ﷺ لیس إسنادہ بقوي‘‘

اس کا وضو ہو جائے گا، بسم اللہ کے بارے میں نبی ﷺ کی (طرف منسوب) حدیث کی سند قوی نہیں ہے۔

(مسائل ابن ہانئ: 17)

امام اسحاق بن منصور الکوسج نے امام احمدبن حنبل رحمہما اللہ سے پوچھا:

اگر وضو کرے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو؟

انھوں نے فرمایا:

’’لا أعلم فیہ حدیثًا لہ إسنادہ جیّد‘‘

مجھے اس بارے میں ایسی کوئی حدیث معلوم نہیں جس کی سند اچھی ہو۔

(مسائل احمد واسحاق روایۃ اسحاق بن منصور الکوسج 1/ 68 فقرہ: 2)

ثابت ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ضعیف + ضعیف والی مروّجہ حسن لغیر ہ روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔

تنبیہ: ہماری تحقیق میں سنن ابن ماجہ (397) وغیر ہ والی حدیث حسن لذاتہ ہے، لہٰذا وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور جو شخص اقامتِ حجت کے بعد بسم اللہ نہ پڑھے تو اس کا وضو نہیں ہوتا۔

— نمبر 2 —

حدیث: داڑھی کا خلال کر نا یعنی وضو کے دوران میں تخلیل اللحیۃ۔

اس حدیث کی چند سندیں درج ذیل ہیں:

1: عن عمار بن یاسر رضي اللہ عنہ (ترمذی:29۔30، ابن ماجہ:429، الحاکم 1/ 149)

2: عن عثمان بن عفان رضي اللہ عنہ (ترمذی:31، ابن ماجہ:340، حاکم 1/ 149، بیہقی 1/ 54)

3: عن أنس بن مالک رضي اللہ عنہ (ابو داود:145، بیہقی 1/ 54)

امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’لا یثبت عن النبي ﷺ في تخلیل اللحیۃ حدیث‘‘

نبی ﷺ سے داڑھی کے خلال کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔

(علل الحدیث 1/ 252 ح 101)

ثابت ہواکہ امام حاتم کے نزدیک ضعیف+ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ روایت حجت نہیں ہے۔ نیز دیکھئے تاریخ بغداد (2/ 76 ت 455) اور الحدیث حضرو: 83 ص 25

داڑھی کے خلال والی حدیث کے بارے میں ابن حزم نے کہا:

اور ان تمام روایات میں سے کوئی چیز بھی صحیح نہیں۔

(المحلّی 2/ 36 مسئلہ 190)

تنبیہ: میر ے نزدیک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ والی حدیث حسن لذاتہ ہے اور ثقہ راوی اسرائیل بن یونس پر ابن حزم کی جرح جمہو رکے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

— نمبر 3 —

حدیث: جوشخص کسی میّت کو نہلائے تو وہ غسل کرے۔

اس حدیث کی چند سندیں درج ذیل ہیں:

1: القاسم بن عباس عن عمروبن عمیر عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (ابوداود:3161، بیہقی 1/ 303)

2: إسحاق مولی زائدۃ عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (ابو داود:3162)

وسقط ذکرہ من روایۃ الترمذي (993) وقال: ’’حدیث حسن‘‘

3: الحارث بن مخلد عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (بیہقی 1/ 301 والسند إلی الحارث حسن)

4: عن صالح مولی التوأمۃ عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (بیہقی 1/ 302، احمد 2/ 433 ح 9601)

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی سندیں ہیں۔

لیکن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’لایصح الحدیث فیہ ولکن یتوضأ‘‘

اور اس میں حدیث صحیح نہیں، لیکن وہ وضوکرے۔

(مسائل الامام احمد روایۃصالح بن احمد 1/ 460 فقرہ: 574)

اور فرمایا:

’’لیس فیہ حدیث یثبت‘‘

اور اس میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔

(مسائل الامام احمد روایۃ عبداللہ بن احمد 1/ 79 فقرہ: 87، نیز دیکھئے ص 82 فقرہ: 92)

بطورِ تائید عرض ہے کہ امام بخاری نے امام احمد بن حنبل اور امام علی بن عبد اللہ المدینی سے نقل کیا:

’’لایصح في ھذا الباب شئ‘‘

اس باب میں کوئی چیز صحیح نہیں۔

(السنن الکبریٰ للبیہقی بحوالہ ابو عیسی الترمذی 1/ 301۔302، العلل الکبیرللترمذی 1/ 402 باب 147)

امام محمد بن یحییٰ الذھلی نے فرمایا:

مجھے غسلِ میت سے غسل والی کو ئی ثابت شدہ حدیث معلوم نہیں اوراگر ثابت ہوتی تو ہم پر ضروری تھا کہ اس پر عمل کرتے۔

(السنن الکبریٰ للبیہقی 1/ 302 و سندہ صحیح)

ابن الجوزی نے کہا:

’’ھذہ الأحادیث کلھا لایصح‘‘

یہ ساری حدیثیں صحیح نہیں ہیں۔

(العلل المتناھیہ ج 1 ص 378 بعد ح 630)

علامہ نووی نے امام ترمذی کا رَد کرتے ہوئے کہا:

’’بل ھو ضعیف‘‘

بلکہ وہ (روایت) ضعیف ہے۔

(المجموع شرح ا لمھذب 5/ 185)

امام ابوبکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری نے فرمایا:

’’ولیس فیہ خبر یثبت‘‘

اور اس (مسئلے) میں کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔

(الاوسط 1/ 351 تحت ت 2968)

بہت سے علماء نے اس حدیث کو حسن یا صحیح قرار دیا اور راقم الحروف کے نزدیک ابوداود (3162) اور بیہقی (1/ 301) وغیرہما کی حدیث حسن ہے، لیکن امام احمد بن حنبل، امام محمد بن یحییٰ الذھلی، امام ابن المنذر، حافظ ابن الجوزی اورعلامہ نووی وغیرہم کا اس حدیث پر جرح کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ضعیف+ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔

امام بیہقی نے فرمایا:

اس باب میں ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مرفوع روایات قوی نہیں ہیں، بعض راویوں کے مجہول ہو نے اور بعض راویوں کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اور صحیح یہ ہے کہ یہ ابوہریرہ کی موقوف روایت ہے، مرفوع نہیں۔

(السنن الکبریٰ 1/ 303)

معلوم ہوا کہ امام بیہقی بھی متساہل ہونے کے باوجود ضعیف+ضعیف = مروّجہ حسن لغیرہ کے حجت ہونے کے علی الاطلاق قائل نہیں تھے۔

تنبیہ: دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ روایت ِمذکورہ کا حکم وجوبی نہیں بلکہ استحبابی ہے۔ (دیکھئے نیل المقصود: 3162)

بلکہ بعض علماء نے اسے منسوخ قرار دیاہے۔ واللہ اعلم

— نمبر 4 —

حدیث: کہینوں تک تیمم کرنا

بعض روایات میں کہینوں کا قولًا یافعلًا ذکر آیا ہے، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

1: عن ابن عمر رضي اللہ عنہ (المحلّی 2/ 149مسئلہ: 250، ابوداود: 330وسندہ ضعیف منکر)

2: عن عمار بن یاسر رضي اللہ عنہ (المحلّی 2/ 149، البزاربحوالہ نصب الرایہ 1/ 154)

3: عن أبي ذر رضي اللہ عنہ (المحلّی 2/ 150)

مفصل تخریج کے لئے دیکھئے نصب الرایہ (1/ 150۔154)اور عقود الجو اھر المنیفہ (ص40)

ان روایتوں کے بارے میں ابن حزم نے کہا:

یہ تمام روایتیں ساقط ہیں، ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی حجت پکڑنا جائز نہیں۔

(المحلّی 2/ 148)

فائدہ: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہنیوں تک تیمم کا کرنا ثابت ہے۔ (الموطأ للامام مالک 1/ 65 ح 911، وسندہ صحیح)

— نمبر 5 —

عام نمازوں میں صرف ایک سلام پھیرنے والی روایت کئی سندوں سے مروی ہے، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

1: عن حمید الطویل عن أنس بن مالک رضي اللہ عنہ (المعجم الاوسط للطبرانی بحوالہ الصحیحہ للالبانی: 316 وسندہ ضعیف)

2: عن أیوب عن أنس رضي اللہ عنہ (مصنف ابن ابی شیبہ بحوالہ الصحیحہ 1/ 566 وسندہ ضعیف)

3: عن سلمۃ بن الأکوع رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ: 930 وسندہ ضعیف / انوار الصحیفہ ص411)

4: عن عائشۃ رضي اللہ عنھا (ترمذی:296، ابن ماجہ:919 بسندین ضعیفین)

5: عن سھل بن سعد الساعدي رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ:918)

اس طرح کی اور روایات بھی ہیں جو شیخ البانی وغیر ہ کے اصول سے مروّجہ حسن لغیرہ بن جاتی ہیں۔

لیکن حافظ ابن عبد البر نے فرمایا:

نبی ﷺ سے سعد بن ابی وقاص، عائشہ اور انس (رضی اللہ عنہم) کی احادیث سے ایک سلام مروی ہے، لیکن یہ روایتیں معلول ہیں، علمائے حدیث انھیں صحیح قرار نہیں دیتے۔

(الاستذکار 1/ 489 باب التشھد فی الصلوٰۃ)

ابن الجوزی نے کہا:

’’والجواب أن ھذہ الأحادیث ضعاف‘‘

اور جواب یہ ہے کہ یہ حدیثیں ضعیف ہیں۔

(التحقیق ومعہ التنقیح لابن عبد الھادی 1/ 369 تحت ح 622)

نووی نے ایک سلام والی حدیث کے بارے میں کہا:

’’ضعفہ الجمھور ولایقبل تصحیح الحاکم لہ ……… و لیس فی الاقتصار علٰی تسلیمۃ واحدۃ شئثابت‘‘

جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا اور حاکم کا اسے صحیح کہنا قابل ِقبول نہیں ……… ایک سلام پر اکتفاکرنے والی کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔

(خلاصۃ الاحکام ج 1 ص 445، 446 فقرہ: 1460، 1463)

عقیلی نے کہا:

’’ولایصح فی التسلیمۃ شئ‘‘

اور ایک سلام کے بارے میں کوئی چیز صحیح نہیں۔

(الضعفاء للعقیلی مخطوطہ برلن ومطبوعہ محققہ 1/ 475 ترجمۃ ثمامۃ بن عبیدۃ، ونسخۃ دارالصمیعی 1/ 195)

اور فرمایا:

’’والحدیث في تسلیمۃ أسانیدھا لینۃ‘‘

اور ایک سلام کے بارے میں حدیث کی سندیں کمزور ہیں۔

(الضعفاء للعقیلی نسخۃ عبدالمعطی 2/ 58، نسخۃ الصمیعی 2/ 412، نسخۃ دارمجد السلام مصر 2/ 336)

ثابت ہوا کہ ابن عبد البر، ابن الجوزی، نووی اور عقیلی چاروں ضعیف+ضعیف کوحسن لغیرہ بنا کر حجت نہیں سمجھتے تھے۔

نیز دیکھئے المحلی لابن حزم (4/ 132 مسئلہ 457)

تنبیہ:نمازِ جنازہ میں صرف دائیں طرف سلام پھیرنا حدیث سے ثابت ہے۔ (دیکھئے میری کتاب:مختصر صحیح نمازِ نبوی ص95، طبع جدید 2009ء)

— نمبر 6 —

حدیث: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم

یہ روایت (کہ ہر مسلمان پر طلب ِعلم فرض ہے) بہت سی سندوں سے مروی ہے اور شیخ البانی وغیرہ نے اسے صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔ مثلًا دیکھئے تخریج احادیث مشکلۃ الفقر وکیف عالجھا الإسلام للالبانی (ص48۔62 ح 86)

بلکہ امام ابو علی الحسین بن علی الحافظ النیسابوری نے کہا کہ یہ حدیث میرے نزدیک صحیح ہے۔ (المدخل للبیہقی: 326 وسندہ صحیح)

جبکہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا:

’’لایثبت عندنا فیہ شئ‘‘

ہمارے نزدیک اس کے بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔

(المنتخب من العلل للخلال ص 128 ح 62)

امام اسحاق بن راہویہ نے کہا:

’’طلب العلم فریضہ کے بارے میں حدیث صحیح نہیں لیکن اس کا معنی قائم ہے ………‘‘

(مسائل احمد واسحاق روایۃ اسحاق بن منصور الکوسج 2/ 529 فقرہ: 3272، جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر 1/ 27 ح 23 باختلاف یسیر وسندہ حسن)

امام عقیلی نے کہا:

اور اس باب میں روایت کمزور ہے۔

(الضعفاء 2/ 58 دوسرانسخہ 2/ 412)

نیز دیکھئے الضعفاء للعقیلی (ترجمہ عائذ بن ایوب 3/ 410، دوسر انسخہ 3/ 1104)

امام بیہقی نے بھی اس حدیث کے بارے میں فرمایا:

’’اس کا متن مشہور ہے اور سندیں ضعیف ہیں، مجھے اس کی کوئی ایسی سند معلوم نہیں جس سے حدیث ثابت ہو جائے۔‘‘

نیز انھوں نے کہا:

اور اگر یہ حدیث صحیح ہو تو ………

(المدخل: 325، 327)

تنبیہ: یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ومردود ہی ہے اور اسے صحیح یا حسن قرار دینا غلط ہے۔

تاہم یہ ثابت ہے کہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’طلب العلم والجھاد فریضۃ علی جماعتھم ویجزئ فیہ بعضھم عن بعض‘‘

طلبِ علم اور جہاد جماعت پر فرض ہے اور بعض کی طرف سے یہ فرض ادا ہو جاتا ہے۔

پھر انھوں نے سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 122، کا ایک حصہ تلاوت فرمایا۔

(دیکھئے جامع بیان العلم وفضلہ ح 26 وسندہ صحیح)

— نمبر 7 —

ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے کھڑے ہو کر جوتے پہننے سے منع فرمایا ہے اور اس روایت کی چند سندیں درج ذیل ہیں:

1: أزھر بن مروان البصري عن الحار ث بن نبھان عن معمر عن عمار بن أبي عمار عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (ترمذی:1775)

2: قتادہ عن أنس رضي اللہ عنہ (ترمذی:1776)

3: أبو الزبیر عن جابر رضي اللہ عنہ (ابو داود:4135)

4: أبو معاویۃ عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ:3618)

5: وکیع عن سفیان الثوری عن عبداللہ بن دینار عن ابن عمر رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ:3619)

شیخ البانی نے تو اس حدیث کو صحیح قرار دیاہے، لیکن امام بخاری نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایتوں میں سے ہر ایک روایت کے بارے میں فرمایا:

’’ولایصح ھذا الحدیث‘‘

اور یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ الخ

(سنن ترمذی:1776)

امام ترمذی نے فرمایا:

یہ دونوں حدیثیں اہلِ حدیث کے نزدیک صحیح نہیں ہیں۔

(الترمذی: 1775)

ثابت ہوا کہ امام بخاری اور امام ترمذی دونوں کے نزدیک ضعیف + ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ روایت حجت نہیں، بلکہ ضعیف ہوتی ہے۔

اما م ترمذی کے مزید حوالے کے لئے دیکھئے سنن ترمذی (86) اور میرا مضمون: ابن حزم او ر ضعیف + ضعیف کی مروّجہ حسن لغیر ہ کا مسئلہ (فقرہ: 5)

— نمبر 8 —

نمازِ عیدین میں بارہ تکبیروں والی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے اور بعض سندیں حسن لذاتہ ہیں۔ مثلًا دیکھئے سنن ابی داود (1151، وسندہ حسن لذاتہ) اور جنۃ المرتاب (ص 301۔310)

جبکہ علامہ ابن حزم نے کہا:

ان روایات میں سے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے۔

(المحلی 5/ 84 مسئلہ 543)

— نمبر 9 —

ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

امام جہاں (فرض) نماز پڑھے تو وہاں نفل نماز نہ پڑھے۔

یہ روایت اس مفہوم کے ساتھ درج ذیل اسانید سے مروی ہے:

1: عبد العزیز بن عبد الملک القرشي عن عطاء الخراساني عن المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللہ عنہ (ابوداود: 616 وقال الألبانی:صحیح)

٭ ابن وھب عن عثمان بن عطاء الخرساني عن أبیہ عن المغیرۃ رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ: 1428)

2: عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (صحیح البخاری ح 848 وضعفہ البخاری رحمہ اللہ)

ومفھومہ في سنن أبي داود (1006) وسنن ابن ماجہ (1427) وقال الألباني:’’صحیح‘‘!

3: عن علي رضي اللہ عنہ قال: من السنۃ أن لایتطوع الإمام حتی یتحول من مکانہ (ابن ابی شیبہ بحوالہ فتح الباری 2/ 335 تحت ح 848 وقال ابن حجر:’’بإسنادحسن‘‘!)

4:عن أبی رمثۃ رضي اللہ عنہ (ابوداود:1007، وسند ہ ضعیف، انوار الصحیفہ ص 48)

اس روایت کی تمام سندیں ضعیف ومردود ہیں۔

اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’ولم یصح‘‘

اور (یہ حدیث) صحیح نہیں ہے۔

(صحیح بخاری مع الفتح 2/ 334 ح 848)

اور فرمایا:

’’ولم یثبت ھذا الحدیث‘‘

اور یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔

(التاریخ الکبیر 1/ 341 ت 1073، اسماعیل بن ابراہیم السلمی)

جو لوگ اس روایت کو صحیح سمجھتے ہیں، اُن پر امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا صحیح و ثابت اثر پیش کر کے لطیف رد کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جہاں فرض پڑھتے، وہیں (نفل) نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری: 848)

— نمبر 10 —

نمازِ تسبیح پڑھنے کے بارے میں ایک مشہور حدیث ہے، جس کی بعض سندیں درج ذیل ہیں:

1: موسی بن عبد العزیز عن الحکم بن أبان عن عکرمۃ عن ابن عباس رضي اللہ عنہ (ابو داود:1297، ابن ماجہ:1387، وسندہ حسن لذاتہ)

2: عن عبد اللہ بن عمرو رضي اللہ عنہ (ابو داود:1298، وسندہ ضعیف)

3: عن الأنصاري وقیل أنہ جابر رضي اللہ عنہ (ابوداود:1299، والسند صحیح إلی الانصاری)

4: المستمر بن الریان عن أبي الجوزاء عن عبداللہ بن عمرو رضي اللہ عنہ موقوفًا (ابو داود:1298، تعلیقًا۔ النکت الظراف 6/ 280 ح 8606)

کئی سندوں والی یہ روایت حسن لذاتہ اورصحیح لغیرہ ہے، لیکن امام ابن خزیمہ نے فرمایا:

’’باب صلوۃ التسبیح إن صح الخبر فإن فی القلب من ھذا الإسناد شئ‘‘

نمازِ تسبیح کا باب، بشرطیکہ روایت صحیح ہو، کیونکہ دل میں اس سند کی وجہ سے کوئی چیز (کھٹکتی)ہے۔

(صحیح ابن خزیمہ 2/ 223قبل ح 1216)

قاضی ابو بکر بن العربی المالکی نے کہا:

اور عباس کے قصے کے بارے میں ابورافع (رضی اللہ عنہ) کی حدیث ضعیف ہے، صحیح یا حسن ہونے میں اس کی کوئی اصل نہیں ……… الخ

(عارضۃ الا حوزی 2/ 266، 267 تحت ح 481)

عقیلی نے کہا:

’’ولیس فی صلوۃ التسبیح حدیث یثبت‘‘

اورنماز تسبیح کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔

(الضعفاء الکبیر 1/ 124، دوسر انسخہ 1/ 141، اوس بن عبد اللہ ابو الجوزاء)

حافظ ابن تیمیہ نے تو یہ دعویٰ کر دیا کہ صلوۃ التسبیح والی حدیث ’’أنھا کذب‘‘ جھوٹ ہے۔!! (دیکھئے منہاج السنۃ ج 4 ص 116 سطر 28)

قاضی شوکانی نے بھی اس حدیث پر جرح کی اور کہا:

’’والحق أن طرقہ کلھا ضعیفۃ وأن حدیث ابن عباس یقرب من الحسن إلاأنہ شاذ لشد ۃ الفردیۃ فیہ ………‘‘

اور حق یہ ہے کہ اس کی تمام سندیں ضعیف ہیں اور ابن عباس کی حدیث حسن کے قریب ہے، لیکن یہ سخت غریب ہونے کی وجہ سے شاذ ہے۔

(تحفۃ الذاکرین ص 242 صلوۃ التسبیح)

حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا:

’’وقد ضعفھاابن تیمیۃ والمزي وتوقف الذھبي، حکاہ ابن عبد الھادي عنھم في أحکامہ‘‘

اسے ابن تیمیہ اور مزی نے ضعیف قرار دیا اورذہبی نے (اس کے بارے میں) توقف کیا۔ یہ بات ابن عبد الہادی نے احکا م میں ان سے نقل کی ہے۔

(التلخیص الحبیر 2/ 7 ح 482)

ابن تیمیہ، مزی اور ذہبی کے شاگرد ابن عبد الہادی (متوفی 744ھ) کی تصانیف میں الاحکام الکبریٰ مذکور ہے جو آٹھ جلدوں میں ہونے کے باوجو د نامکمل تھی۔ (دیکھئے مقدمہ طبقات علماء الحدیث 1/ 41)

ثابت ہوا کہ مذکورہ تمام علماء مثلًا ابن خزیمہ، قاضی ابوبکر بن العربی، عقیلی، ابن تیمیہ، مزی اور شوکانی وغیرہم ضعیف + ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ کے حجت ہونے کے قائل نہیں تھے، ورنہ وہ بہت سی سند وں والی روایت: صلوۃ التسبیح کو کبھی ضعیف قرار نہ دیتے، جبکہ اس روایت کی بعض سندیں حسن لذاتہ بھی ہیں۔

اہلِسنت کے ایک جلیل القدر امام احمد بن حنبل نے نمازِتسبیح کے بارے میں فرمایا:

’’لم یثبت عندي صلاۃ التسبیح وقد اختلفوا في إسنادہ، لم یثبت عندي، وکأنہ ضعف عمرو بن مالک ا لنکري‘‘

میرے نزدیک نمازِ تسبیح ثابت نہیں اور انھوں نے اس کی سندمیں اختلاف کیاہے، میرے نزدیک ثابت نہیں۔

(عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے کہا:) اور گویا انھوں نے عمرو بن مالک النکری کو ضعیف قرار دیا۔

(مسائل الامام احمد، روایۃ عبداللہ بن احمد 2/ 295 فقرہ 413)

امام احمد سے نماز تسبیح کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:

’’إسنادہ ضعیف‘‘

اس کی سند ضعیف ہے۔

(مسائل ابن ہانی ج 1 ص 105 فقرہ: 520)

بعض علماء کہتے ہیں کہ امام احمد نے اس بات سے رجوع کرلیا تھا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ علی بن سعید (النسائی) نے امام احمد سے نمازِ تسبیح کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:

’’لایصح فیھا عندي شئ‘‘

میر ے نزدیک اس میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔

پھرعلی بن سعید نے مسلم بن ابراہیم عن المستمر بن الریان عن أبی الجوزاء عن عبداللہ بن عمرو والی روایت پیش کی تو امام احمد نے فرمایا: مستمر ثقہ ہیں، اور گویا آپ کو یہ روایت اچھی لگی۔

(دیکھئے النکت الظراف لابن حجر 6/ 280، اجوبۃ العسقلانی المطبوعۃ فی آخر مشکوۃ الالبانی ص 1779۔1780، النقد الصحیح بحوالہ التنقیح لما جاء فی صلوۃ التسبیح ص41۔42)

صحیح یا حسن لذاتہ روایت کی بنیاد پر امام احمد کا رجوع کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ ضعیف + ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔

ہم نے جو حوالے پیش کئے ہیں، ان کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں جن سے ہمارا موقف صاف ثابت ہوتا ہے۔

آخر میں ان اماموں اور علمائے کرام کے نام پیشِ خدمت ہیں جو ضعیف + ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ روایت کی حجیت کے قائل نہیں تھے اور اس مضمون میں ان کے حوالے موجود ہیں:

1: احمد بن حنبل (فقرہ:1، 3، 6، 10)

2: ابو حاتم الرازی (فقرہ:2)

3: ابن حزم (فقرہ:2، 4، 8)

4: بخاری (فقرہ:3، 7، 9)

5: علی بن المدینی (فقرہ:3)

6: ابن الجوزی (فقرہ:3، 5)

7: محمد بن یحییٰ الذھلی (فقرہ:3)

8: ابن المنذر النیسابوری (فقرہ:3)

9: نووی (فقرہ:3، 5)

10: بیہقی (فقرہ:3، 6)

11: ابن عبد البر (فقرہ:5)

12: عقیلی (فقرہ:5، 6، 10)

13: اسحاق بن راہویہ (فقرہ:6)

14: ترمذی (فقرہ:7)

15: ابن خزیمہ (فقرہ:10)

16: ابو بکر بن العربی (فقرہ:10)

17: ابن تیمیہ (فقرہ:10)

18: شوکانی (فقرہ:10)

19: مزی (فقرہ:10)

20: ذہبی (فقرہ:10)

ان کے علاوہ اماموں اور علماء کے حوالے بھی موجود ہیں، مثلًا ایک ضعیف روایت میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے نبیذ کے بارے میں فرمایا: پاک کھجور اور پاک پانی۔

یہ روایت کئی سندوں سے مروی ہے۔ دیکھئے میرا مضمون: ابن حزم اور ضعیف + ضعیف کی مروّجہ حسن لغیر ہ کا مسئلہ (فقرہ:1)

اس روایت کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی اور امام ابو زرعہ الرازی رحمہما اللہ دونوں نے فرمایا:

’’ولایصح في ھذا الباب شئ‘‘

اور اس باب میں کوئی چیز بھی صحیح نہیں۔

(علل الحدیث 1/ 45 ح 99، دوسرا نسخہ 1/ 251 ح 99)

ثابت ہوا کہ امام ابو زرعہ الرازی بھی ضعیف + ضعیف والی مروّجہ حسن لغیر ہ روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے اور غالبًا یہی وجہ ہے کہ امام ابوحاتم الرازی کے ساتھ ایک بحث مباحثے میں جب اُن کی پیش کردہ روایا ت مجروح ثابت ہوگئیں تو انھوں نے سکوت فرمایا، جو گویا خاموش تائید ہے۔ دیکھئے الحدیث حضرو: 83 (ص 25)

جس شخص کا یہ دعویٰ ہے ضعیف + ضعیف والی روایات حسن لغیرہ بن کر حجت ہو جاتی ہیں اور ان کا انکار صحیح نہیں ہے تو اس سے مطالبہ ہے کہ وہ جلیل القدر محدثین سے اس کا صحیح وصریح ثبوت پیش کرے اور اگر پیش نہ کر سکے تو باطل میں جھگڑا کرنے کے بجائے حق کی طرف رجوع ضروری ہے۔

……… اصل مضمون ………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 5 صفحہ 173 تا 185)