نابالغ قارئ قرآن کی امامت

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


الحمد للّٰہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علٰی رسولہ الأمین، أما بعد:

اگر کسی صحیح العقیدہ نابالغ بچے کو قرآنِ مجید یاد ہو اور وہاں دوسرے لوگوں کو اُتنا قرآن یاد نہ ہو تو یہ جائز ہے کہ وہ صحیح العقیدہ بچہ اُن لوگوں کو فرض نمازیں اور نمازِ تراویح پڑھائے۔

اس مسئلے کے بعض دلائل درج ذیل ہیں:

1- سیدنا سلِمہ بن قیس الجرمی رضی اللہ عنہ (صحابی کبیر) کے بیٹے سیدنا عمرو بن سلِمہ الجرمی رضی اللہ عنہ (صحابی صغیر / تقریب التہذیب: 5042) سے روایت ہے کہ:

جب میرے والد اپنے وفد کے ساتھ نبی ﷺ کے پاس سے واپس آئے تو کہا: ’’اللہ کی قسم! میں سچے نبی کے پاس سے آیا ہوں، آپ نے فرمایا ہے کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان کہے اور امامت وہ کرائے جو سب سے زیادہ قرآن جانتا ہے۔‘‘

پھر انھوں (صحابہ) نے مجھے امام بنالیا اور میری عمر چھ یا سات سال تھی کیونکہ مجھ سے زیادہ کوئی بھی قرآن کا حافظ نہیں تھا۔ إلخ

(صحیح بخاری: 4302، فتح الباری 8/ 22)

اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ نابالغ حافظِ قرآن نماز کی امامت کرا سکتا ہے۔

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس صحابی کی تو شرمگاہ حالتِ نماز میں ننگی ہو جاتی تھی۔!

تو اس کے چار جوابات ہیں:

اول: یہ واقعہ جان بوجھ کر نہیں، بلکہ بعض اوقات مجبوری اور حالتِ اضطرار میں ہو جاتا تھا۔

یہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ مجبوری اور حالتِ اضطرار کی وجہ سے اعتراض کرنا غلط ہے۔

دوم: بعد میں سیدنا عمرو الجرمی رضی اللہ عنہ کو جب چادر مل گئی تو شرمگاہ کے، لاعلمی و اضطراری حالت میں ننگا ہو جانے والا مسئلہ بھی ختم ہو گیا۔

سوم: جان بوجھ کر حالتِ نماز میں شرمگاہ ننگی کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

چہارم: لا علمی اور اضطراری حالت کے علاوہ اگر شرمگاہ کے ننگا کرنے کا جواز کوئی تقلیدی ’’فقیہ‘‘ کہیں سے ڈھونڈ بھی نکالے تو عرض ہے کہ صحیح بخاری (367) کی حدیث: ’’نھی رسول اللہ ﷺ عن اشتمال الصماء و أن یحتبي الرجل في ثوب واحد لیس علٰی فرجہ منہ شئ‘‘ کی رُو سے یہ عمل منسوخ ہے۔

2- سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إذا کانوا ثلاثۃ فلیؤمھم أحدھم وأحقھم بالإمامۃ أقرأھم))

اگر تین آدمی ہوں تو ایک انھیں امامت کرائے اور ان میں امامت کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہے جو اُن میں سب سے بڑا قاری (حافظ) ہے۔

(صحیح مسلم: 672، ترقیم دارالسلام: 1529)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جسے سب سے زیادہ قرآن یاد ہو، وہ امامت کرائے چاہے وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک بچہ ہی کیوں نہ ہو۔

3- سیدنا ابو مسعود الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((یؤم القوم أقرؤھم لکتاب اللہ))

لوگوں کی امامت وہ کرائے جو کتاب اللہ کا اُن میں سب سے بڑا قاری ہو۔

(صحیح مسلم: 673، دارالسلام: 1532)

4- امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

اگر نابالغ قاری جو نماز جانتا ہے، بالغوں کو نماز پڑھا دے تو جائز ہے اور (بہتر یہ ہے کہ) بالغ کی امامت کو اختیار کرنا چاہئے۔ إلخ

(کتاب الام ج 1 ص 166، باب: امامۃ الصبی لم یبلغ)

5- امام ابن خزیمہ النیسابوری رحمہ اللہ (المتوفی 311ھ) نے سیدنا عمرو بن سلِمہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث پر باب باندھا:

’’باب اِباحۃ إمامۃِ غیرِ المدرکِ البالغینَ إذا کان غیر المدرک أکثر جمعًا للقرآن من البالغین‘‘

(صحیح ابن خزیمہ ج 3 ص 6 قبل ح 1512)

معلوم ہوا کہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نابالغ حافظِ قرآن کی امامت کو جائز سمجھتے تھے۔

6- امام بیہقی نے سیدنا عمرو بن سلِمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ’’باب إمامۃ الصبي الذي لم یبلغ‘‘ لکھ کر نابالغ قاری کی امامت کا جواز ثابت کیا۔ دیکھئے السنن الکبریٰ (3/ 91)اور معرفۃ السنن والآثار (2/ 373)

7- اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے ایک بچے کو امامت کے لئے آگے کیا تھا۔ دیکھئے الاوسط لابن المنذر (4/ 151 ث 1935، وسندہ صحیح)

اس اثر اور دیگر آثار سے صاف ثابت ہے کہ سیدنا عمرو بن سلِمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو منسوخ سمجھنا یا یہ دعویٰ کرنا کہ یہ ابتداءِ اسلام کا واقعہ تھا، غلط اور مردود ہے۔

8- امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر بچہ نو سال سے زیادہ یا دس سال کا ہو تو اس کی امامت جائز ہے۔ دیکھئے مسائل الامام احمد و اسحاق (روایۃ الکوسج 1/ 151، فقرہ: 243)

اور مختصر قیامِ اللیل (تصنیف محمد بن نصر المروزی، اختصار المقریزی ص 223)

9- امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری نے کہا: نابالغ کی امامت جائز ہے، اگر وہ نماز جانتا ہے اور نماز قائم کر سکتاہے۔ (الاوسط 4/ 152)

10- عاصم الاحول (تابعی) رحمہ اللہ نے سیدنا عمرو بن سلِمہ الجرمی رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرکے کہا:

’’فلم یزل إمام قومہ فی الصلٰوۃ وعلٰی جنائزھم‘‘

پھر وہ نماز اور جنازوں میں مسلسل اپنی قوم کے امام رہے۔

(مختصر قیام اللیل ص 221 وسندہ صحیح)

چونکہ امام عاصم الاحول نے اس حدیث پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اپنے اس قول سے اس کی تائید کی ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ وہ بھی نابالغ قاری و حافظ کی امامت کے جواز کے قائل تھے۔

ان تمام احادیث و آثار کے مقابلے میں بعض آلِ تقلید یہ کہتے ہیں کہ ’’نابالغ کی امامت جائز نہیں‘‘ دیکھئے نعیم الدین دیوبندی عرف انوار خورشید کی کتاب ’’حدیث اور اہلحدیث‘‘ (ص 490)

ان لوگوں کے شبہات اور غلط استدلالات کے مختصر اور جامع جوابات درج ذیل ہیں:

1: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بچہ (نابالغ) امامت نہ کرائے، جب تک اس پر حدود واجب نہ ہو جائیں۔ (نیل الاوطار 3/ 165، بحوالہ سنن الاثرم، اعلاء السنن للتھانوی 4/ 298 ح 1267)

یہ روایت بے سند ہے۔

سرفراز خان صفدر دیوبندی نے ایک روایت کے بارے میں کہا:

’’اور امام بخاری ؒ نے اپنے استدلال میں ان کے اثر کی کوئی سند نقل نہیں کی اور بے سند بات حجت نہیں ہو سکتی۔‘‘

(احسن الکلام طبع دوم ج 1 ص 327، دوسرا نسخہ طبع جون 2006ء ص 403 ج 1)

2: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’امامت نہ کرائے لڑکا جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے۔‘‘ (نیل الاوطار مطبوعہ دارالکتب العربی بیروت 2/ 424 بحوالہ اثرم فی سننہ، اعلاء السنن 4/ 299 ح 1268)

یہ روایت بے سند ہے لہٰذا مردود اور ناقابلِ حجت ہے۔

کوئی سکوت کرے یا نہ کرے، بے سند روایتیں مردود ہوتی ہیں۔

مصنف عبدالرزاق (2/ 398 ح 3847) میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اثر ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی (کذاب متروک) کی سند سے موجود ہے اور بلحاظِ سند موضوع و مردود ہے۔ اس میں ایک اور علتِ قادحہ بھی موجود ہے۔

اس طرح کی ایک اور ضعیف روایت الاوسط لابن المنذر (4/ 152) میں موجود ہے۔

3: ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (سیدنا) امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ نابالغ ہماری امامت کرائے۔ (ابن ابی داود بحوالہ کنز العمال 8/ 263 ح 22837، اعلاء السنن 4/ 299 ح 1269)

یہ روایت امام ابو بکر ابن ابی داود رحمہ اللہ کی کتاب المصاحف (ص 217) میں نہشل بن سعید کی سند سے موجود ہے۔ (المصاحف نسخۃ محققہ ج 2 ص 651 ح 772)

یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے کیونکہ اس کا راوی نہشل بن سعید بن وردان کذاب و متروک تھا۔ مثلاً دیکھئے تقریب التہذیب (7198)

اس کی باقی سند بھی مردود ہے۔

4: عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ نابالغ امامت نہ کرائے، ابن وہب نے کہا: عطاء بن ابی رباح اور یحییٰ بن سعید کا یہی قول ہے۔ (المدونہ ج 1 ص 86، اعلاء السنن ج 4ص 300 ح 1271)

یہ روایت کئی وجہ سے ضعیف و مردود ہے:

اول: ابن وہب مدلس تھے۔ دیکھئے طبقات ابن سعد (7/ 518) اور الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین (ص 25)

دوم: ابن جریج بھی مدلس تھے۔ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر (83/3، ص 55، 56)

اور یہ روایت ’’عن‘‘ سے ہے۔

سوم: مدونہ کتاب بذاتِ خود بے سند، غیر مستند اور غیر معتبر ہے۔

دیکھئے میری کتاب ’’القول المتین فی الجہر بالتأمین‘‘ (ص 87)

چہارم: امام عطاء اور امام یحییٰ کی طرف منسوب قول بلا سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

5: ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ لوگ اس کو مکروہ جانتے تھے کہ بچہ بالغ ہونے سے پہلے امامت کرائے۔ (المدونۃ الکبریٰ 1/ 85، اعلاء السنن 4/ 299 ح 1270)

یہ روایت کئی وجہ سے ضعیف و مردود ہے:

اول: ابن وہب مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے۔

دوم: علی بن زیاد غیر متعین ہے۔

سوم: سفیان ثوری مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے۔

چہارم: مغیرہ بن مقسم مدلس تھے۔ دیکھئے تقریب التہذیب (6851) اور یہ روایت عن سے ہے۔

6: ابراہیم نخعی اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ لڑکا امامت کرائے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے۔ (مصنف عبدالرزاق 2/ 398 ح 3846)

یہ روایت تین وجہ سے ضعیف و مردود ہے:

اول: عبد الرزاق بن ہمام رحمہ اللہ مدلس تھے۔ دیکھئے الضعفاء للعقیلی (3/ 110، 111، وسندہ صحیح) اور میری کتاب الفتح المبین (ص 45) یہ روایت عن سے ہے۔

دوم: سفیان ثوری مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے۔

سوم: مغیرہ بن مقسم مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے۔

تنبیہ: ہم نے اپنے استدلال میں کئی ایسی روایتوں کو چھوڑ دیا ہے جن میں مدلس راوی اپنے عن عن کے ساتھ موجود تھے مثلاً:

روایت نمبر 1: ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ نابالغ بچہ رمضان میں امامت کرا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 349 ح 3503)

اس میں ہشیم بن بشیر، یونس بن عبید اور حسن بصری تینوں مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔

روایت نمبر 2: حسن بصری سے روایت ہے کہ نابالغ بچے کی امامت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 349 ح 3504)

اس میں ہشام بن حسان مدلس تھے اور باقی سند حسن ہے۔

7: عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ لڑکا جو نابالغ ہو وہ امامت نہ کرائے۔ (مصنف عبدالرزاق ج 2 ص 398 ح 3845)

اس روایت کے راوی امام عبدالرزاق (مدلس) نے سماع کی تصریح نہیں کی لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔

8: شعبی سے روایت ہے کہ لڑکا امامت نہ کرائے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 349 ح 3505)

اس میں عبدالعزیز راوی غیر متعین ہے، اگر اس سے مراد عبدالعزیز بن عبید اللہ بن حمزہ بن صہیب ہے تو یہ ضعیف راوی تھا۔ دیکھئے تقریب التہذیب (4111)

لہٰذا یہ سند مردود ہے۔

9: مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لڑکا امامت نہ کرائے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 349 ح 3506)

اس روایت کے راوی رواد بن الجراح ابو عصام پر جمہور محدثین نے جرح کی ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔

حافظ ابن حجر کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ راوی متروک قرار دیا گیا تھا۔ دیکھئے تقریب التہذیب (1958)

10: عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ محمد بن ابی سوید (؟) نے انھیں (عبدالعزیز بن عمر کو) امامت کے لئے کھڑا کیا اور وہ نابالغ بچے تھے پھر عمر بن عبدالعزیز (خلیفہ) ناراض ہوئے اور انھیں لکھا: تمھیں یہ زیب نہیں دیتا کہ تم لوگوں کی امامت کے لئے ایسے لڑکے کو آگے کرو جس پر ابھی حدود واجب نہیں ہوئیں۔ (مصنف عبدالرزاق 2/ 398 ح 3848)

اس روایت کی سند عبدالرزاق (مدلس) کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔

ان تمام غیر ثابت اور مردود حوالوں کی بنیاد پر انوار خورشید دیوبندی نے یہ بلند و بالا دعویٰ کر رکھا ہے: ’’نابالغ کی امامت جائز نہیں‘‘ (دیکھئے حدیث اور اہلحدیث ص 490)!!

11: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

پہلی صف میں اعرابی، عجمی اور نابالغ لڑکا آگے نہ بڑھیں۔

(سنن الدارقطنی ج 1 ص 281 ح 1076، اعلاء السنن 4/ 300 ح 1272)

یہ روایت کئی وجہ سے مردود اور باطل ہے:

اول: لیث بن ابی سلیم مدلس تھا۔ (دیکھئے مجمع الزوائد 1/ 83) اور یہ سند عن سے ہے۔

دوم: لیث بن ابی سلیم کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا۔ دیکھئے زوائد ابن ماجہ للبوصیری (230)

سوم: عبید اللہ بن سعید غیر متعین اور نامعلوم ہے۔

نیز دیکھئے العلل المتناہیہ لابن الجوزی (1/ 428 ح 723)

چہارم: عباس بن سلیم مجہول ہے۔ دیکھئے لسان المیزان (3/ 302) اور بیان الوہم والایہام لابن القطان (3/ 152ح 861)

لہٰذا اس ضعیف و مردود روایت کو بعض فرقہ پرست آلِ تقلید کا حسن کہنا یا حسن لغیرہ قرار دینا مردود ہے۔

ملا علی قاری حنفی تقلیدی نے ایک عجیب ترین بات لکھی ہے:

’’مخالفین حضرات پر تعجب ہے کہ بچہ صحابی (حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ) کے فعل سے جس فعل کو حضور ﷺ سے سنا نہیں (یعنی سند اجازت بھی حاصل نہیں) اس سے تو استدلال کرتے ہیں اس کو تو حجت تسلیم کرتے ہیں لیکن جلیل القدر صحابہ کرام حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہم کبار صحابہ کرام کے اقوال کو (جن میں بچہ کو امام بنانے سے منع کیا گیا ہے) انکو حجت تسلیم نہیں کرتے جبکہ ان حضرات کے اقوال کو مرفوع صحیح حدیث ’’الإمام ضامن‘‘ اور پہلی صف میں بچہ کے قیام کی ممانعت والی جیسی احادیث سے تائید بھی حاصل ہے۔‘‘

(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج 3 ص 89 بحوالہ فتوی حفیظ اللہ ڈیروی تقلیدی دیوبندی، دارالافتاء دارالعلوم کبیر والا، 27/رمضان 1429ھ ص 3)

عرض ہے کہ سیدنا ابوبکر الصدیق، سیدنا عمر الفاروق، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا عبداللہ بن عباس وغیرہم کبارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے باسند صحیح یا حسن قطعاً یہ ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے قرآن کے حافظ نابالغ بچے کو امام بنانے سے منع کیا تھا، لہٰذا ملا علی قاری کا ان جلیل القدر صحابہ کے نام لے کر رعب جمانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

اہلِ حدیث کے موقف کی تائید میں سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث، سیدنا ابو سعید الخدری اور سیدنا ابو مسعود الانصاری رضی اللہ عنہما کی احادیث، سیدنا سلمہ الجرمی رضی اللہ عنہ، سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کے آثار اور امام عاصم الاحول، امام شافعی، امام ابن خزیمہ، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابن المنذر اور امام بیہقی وغیرہم کے اقوال صحیح و ثابت ہیں اور کسی صحیح صریح حدیث کے مخالف نہیں۔ والحمد للہ

پہلی صف میں بچے کے قیام کی ممانعت والی ضعیف روایات کا یہ مطلب ہے کہ غیرحافظ اور غیر قاری بچوں کو پچھلی صفوں میں کھڑا کرنا بہتر اور افضل ہے۔

’’الامام ضامن‘‘ کا یہ مطلب کہاں سے آگیا کہ قرآن کا حافظ سمجھدار بچہ، جو مسائلِ نماز سے بخوبی واقف ہو، امامت نہیں کروا سکتا؟!

سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ صحابی کی حدیث کے مقابلے میں عینی، امام احمد اور ابن حزم وغیرہ کے اقوال کی کیا حیثیت ہے؟ کچھ تو غور کریں۔!

خلاصۃ التحقیق:

ضرورت اور اضطرار کی حالت میں یہ جائز ہے کہ صحیح العقیدہ حافظ قرآن یا دوسرے لوگوں سے زیادہ قرآن جاننے والا بچہ امامت کرائے اور اس کی ممانعت، منسوخیت یا کراہت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ والحمد للہ رب العالمین

……… اصل مضمون ………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 154 تا 162) للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ