نفل نمازوں کے فضائل و مسائل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


ہدیۃ المسلمین حدیث نمبر ۲۳:

عن أم حبیبۃ زوج النبي ﷺ أنھا سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: مامن عبد مسلم یصلّي للہ کل یوم ثنتی عشرۃ رکعۃ تطوعًا غیر فریضۃ، بنی اللہ لہ بیتًا في الجنۃ

نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا: جو مسلمان بندہ ہر روز نماز کی فرض رکعتوں کے علاوہ بارہ رکعات نفل (روزانہ) پڑھتا ہے تو اس کے لئے اللہ تعالی جنت میں ایک محل بنا دیتا ہے۔ (صحیح مسلم ۱ / ۲۵۱ ح ۷۲۸)

فوائد:

اس حدیث پاک اور دیگر احادیث مبارکہ میں فرض نمازوں کے علاوہ بارہ رکعات نفل کی بڑی فضیلت آئی ہے: چار ظہر سے پہلے اور دو بعد، دومغرب کے بعد اور دو عشاء کے بعد اور دو صبح کی فرض نماز سے پہلے۔

بعض روایات میں ظہر کے بعد چار (سنن الترمذی: ۴۲۷ وھو حدیث صحیح) اور عصر سے پہلے چار رکعات (ابو داود:۱۲۷۱، وسندہ حسن) کی بھی فضیلت آئی ہے۔ یہ رکعتیں دوسلام سے پڑھنی چاہئیں۔ (دیکھئے صحیح ابن حبان، الاحسان ۴ / ۷۷ ح ۲۴۴۴)

صحیح بخاری (۱/ ۱۲۸ ح ۹۳۷) وغیرہ میں ظہر سے پہلے دو رکعتیں بھی ثابت ہیں۔

قیام اللیل للمروزی (ص ۷۴) میں بلا سند ابو معمر عبداللہ بن سخبرہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ لوگ (نامعلوم اشخاص) مغرب کے بعد چار رکعات پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔

یہ روایت بلاسند ہونے کی وجہ سے ناقابل حجت ہے۔

مختصر قیام اللیل (ص ۵۸) میں بغیر کسی سند کے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ لوگ (نامعلوم اشخاص) عشاء سے پہلے چار رکعات پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔

یہ روایت بھی بلاسند ہونے کی وجہ سے ناقابلِ حجت ہے۔

یہ تمام رکعتیں دو دوکر کے پڑھنی چاہئیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رات اور دن کی (نفل) نماز دو دو رکعت ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ ۲/ ۲۱۴ ح ۱۲۱۰،صحیح ابن حبان، موارد الظمآن ح ۶۳۶وسندہ حسن)

ایک سلام کے ساتھ (نفل) چار اکٹھی رکعتیں، رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت نہیں ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رات اور دن کی نماز یعنی نفل نماز دو دو رکعتیں ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۲/ ۴۸۷ وسندہ صحیح)

بعض آثار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک سلام سے نوافل و سنن کی چار رکعتیں، اکٹھی پڑھنی جائز ہیں مگر افضل یہی ہے کہ دو دو کر کے پڑھی جائیں۔

مغرب کی اذان کے بعد فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کا جواز ثابت ہے۔

قولِ رسول ﷺ بھی ہے۔ (صحیح البخاری ۱/ ۱۵۷ح ۱۱۸۳)

اور فعلِ رسول ﷺ بھی۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی:ص ۶۴، وقال:ھذا اسناد صحیح علی شرط مسلم، صحیح ابن حبان، الاحسان:۱۵۸۶، وسندہ صحیح)

مغرب کی نماز کے بعدچھ رکعتیں (اوابین) پڑھنے والی روایت عمر بن ابی خثعم (سخت ضعیف راوی) کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ (دیکھئے سنن الترمذی ج ۱ ص ۹۸ ح ۴۳۵)

رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ مغرب کی نماز پڑھی پھر آپ عشاء تک (نفل) نماز پڑھتے رہے۔ دیکھئے سنن الترمذی (۳۷۸۱ وقال:’’حسن غریب‘‘ وسندہ حسن وصححہ ابن خزیمہ:۱۱۹۴ وابن حبان، الموارد: ۲۲۹ والذہبی فی تلخیص المستدرک ۳/ ۳۸۱)

جمعہ کے خطبہ سے پہلے نبی ﷺ سے چار رکعتیں ثابت نہیں ہیں اور نہ کوئی خاص عدد، جتنی مقدر ہو پڑھیں۔ حالت خطبہ میں دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھ جائیں، جمعہ کے بعد چار بھی صحیح ہیں۔ (صحیح مسلم ۱/ ۲۸۸ ح ۸۸۱) اور دو بھی (صحیح بخاری ۱ / ۱۲۸ ح ۹۳۷) لیکن چار بہتر ہیں۔

تفصیل کے لئے دیکھئے حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ہدیۃ المسلمین حدیث نمبر ۲۳