قربانی کے بعض احکام و مسائل - دوسری قسط

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


الحمد رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علٰی رسولہ الأمین، أما بعد:

عیدالاضحی کے موقع پر جو قربانی کی جاتی ہے، اس کے بعض احکام و مسائل پیشِ خدمت ہیں:

نمبر 1:

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إذا رأیتم ھلال ذی الحجۃ و أراد أحدکم أن یضحّی فلیمسک عن شعرہ و أظفارہ))

جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو اسے بال اور ناخن تراشنے سے رُک جانا چاہئے۔

(صحیح مسلم: 1977، ترقیم دارالسلام: 5119)

اس حدیث میں ’’ارادہ کرے‘‘ سے ظاہر ہے کہ قربانی کرنا واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ دیکھئے المحلّی لابن حزم (7/ 355 مسئلہ: 973)

درج بالا حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لئے ناخن تراشنا اور بال مونڈنا منڈوانا، تراشنا ترشوانا جائز نہیں ہے۔

سیدنا ابو سریحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر الصدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما دونوں میرے پڑوسی تھے اور دونوں قربانی نہیں کرتے تھے۔ (معرفۃ السنن والآثار للبیہقی 7/198 ح 5633 وسندہ حسن، وحسنہ النووی فی المجموع شرح المہذب 8/383، وقال ابن کثیر فی مسند الفاروق 1/332: ’’وھذا اسناد صحیح‘‘)

امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: قربانی سنت ہے، واجب نہیں ہے اور جو شخص اس کی استطاعت رکھے تو میں پسند نہیں کرتا کہ وہ اسے ترک کر دے۔ (الموطأ 2/ 487 تحت ح 1073)

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: قربانی کرنا سنت ہے، میں اسے ترک کرنا پسند نہیں کرتا۔ (کتاب الام ج1ص 221)

نیز دیکھئے المغنی لابن قدامہ (9/ 345 مسئلہ: 7851)

امام بخاری نے فرمایا: ’’باب سنۃ الأضحیۃ‘‘ (صحیح بخاری قبل ح 5545)

نمبر 2:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((من کان لہ سعۃ ولم یضحّ فلا یقر بنّ مصلانا))

جس آدمی کے پاس طاقت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (سنن ابن ماجہ: 3123 وسندہ حسن، وصححہ الحاکم 4/ 232 ووافقہ الذہبی ورواہ احمد 2 / 321)

اس روایت میں عبداللہ بن عیاش المصری مختلف فیہ راوی ہیں جن پر کبار علماء وغیرہم نے جرح کی اور جمہور نے توثیق کی، تقریباً پانچ اور چھ کا مقابلہ ہے۔!

روایتِ مذکورہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قربانی کا استخفاف و توہین کرتے ہوئے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے تو اسے مسلمانوں کی عیدگاہ سے دور رہنا چاہئے یعنی یہ روایت قربانی کے استحباب وسُنیت پر محمول اور منکرینِ حدیث کا رد ہے۔

نمبر 3:

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

ایک شخص نے نبی ﷺ سے کہا: آپ کا کیا خیال ہے، اگر مجھے صرف مادہ قربانی (دودھ دینے والا جانور) ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن تم ناخن اور بال کاٹ لو، مونچھیں تراشو اور شرمگاہ کے بال مونڈ لو تو اللہ کے ہاں تمھاری یہ پوری قربانی ہے۔ (سنن ابی داود: 2789 وسندہ حسن، وصححہ ابن حبان، الموارد: 1043، والحاکم 4/ 223 والذہبی)

اس حدیث کے راوی عیسیٰ بن ہلال الصدفی صدوق ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (5337)

انھیں یعقوب بن سفیان الفارسی (المعرفۃ و التاریخ 2/ 515، 487) اور ابن حبان وغیرہما نے ثقہ قرار دیا ہے۔ ایسے راوی کی روایت حسن کے درجے سے کبھی نہیں گرتی۔

عیاش بن عباس القتبانی ثقہ تھے۔ دیکھئے التقریب (5269)

باقی سند صحیح ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، وہ اگر ذوالحجہ کے چاند سے لے کر نمازِ عید سے فارغ ہونے تک بال نہ کٹوائے اور ناخن نہ تراشے تو اسے قربانی کا ثواب ملتا ہے۔

نمبر 4:

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لا تذبحوا إلا مسنۃ إلا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضأن))

دو دانتوں والے (دوندے) جانور کے علاوہ ذبح نہ کرو اِلا یہ کہ تم پر تنگی ہو جائے تو دُنبے کا جذعہ ذبح کردو۔ (صحیح مسلم: 1963، ترقیم دارالسلام: 5082)

بکری (یا بھیڑ) کے اس بچے کو ’’جذعہ‘‘ کہتے ہیں جو آٹھ یا نو ماہ کا ہو گیا ہو۔ دیکھئے القاموس الوحید (ص243)

حافظ ابن حجر نے فرمایا: جمہور کے نزدیک بھیڑ (دُنبے) کا جذعہ اسے کہتے ہیں جس نے ایک سال پورا کر لیا ہو۔ (فتح الباری 10/ 5 تحت ح 5547)

بہتر یہی ہے کہ ایک سال کا جذعہ بھیڑ میں سے ہو، ورنہ آٹھ نو ماہ کابھی جائز ہے۔ واللہ اعلم

تنبیہ بلیغ: صحیح مسلم کی اس حدیث پر عصرِ حاضر کے شیخ البانی رحمہ اللہ کی جرح (دیکھئے الضعیفۃ: 65، ارواء الغلیل: 1145) مردود ہے۔

مستدرک الحاکم (4/ 226 ح 7538 وسندہ صحیح) کی حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مسنہ نہ ہونے کی حالت میں جذعہ کی قربانی کافی ہے۔

نمبر 5:

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أربع لا تجوز فی الأضاحي: العوراء بیّن عورھا والمریضۃ بیّن مرضھا والعرجاء بیّن ظلعھا والکسیر التي لا تنقي))

چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے: ایسا کانا جس کا کانا پن واضح ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو اور بہت زیادہ کمزور جانور جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔

(اس حدیث کے راوی عبید بن فیروز تابعی نے) کہا: مجھے ایسا جانور بھی ناپسند ہے جس کے دانت میں نقص ہو؟ تو سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھیں جو چیز بُری لگے اُسے چھوڑ دو اور دوسروں پر اُسے حرام نہ کرو۔

(سنن ابی داود: 2802)

اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اسے ترمذی (1497) ابن خزیمہ (2912) ابن حبان (1046، 1047) ابن الجارود (481، 907) حاکم (1/ 467، 468) اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا کہ جس چیز کے بارے میں دل میں شبہ ہو اور اسی طرح مشکوک چیزوں سے بچنا جائز ہے۔

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ نے سینگ کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔

مشہور تابعی امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسا جانور جس کا آدھا سینگ یا اس سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔

(سنن النسائی 7/217، 218 ح 4382 وسندہ حسن و صححہ الترمذی: 1504)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت میں آیا ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی کے جانور میں) آنکھ اور کان دیکھیں۔

(سنن النسائی 7/217 ح 4381 وسندہ حسن وصححہ الترمذی: 1503، وابن خزیمہ: 2914 وابن حبان، الاحسان: 5890 والحاکم 4/ 225 والذہبی)

ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ کانے، لنگڑے، واضح بیمار، بہت زیادہ کمزور، سینگ (ٹوٹے یا) کٹے اور کان کٹے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔

علامہ خطابی (متوفی 388ھ) نے فرمایا:

اس (سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ) حدیث میں دلیل ہے کہ قربانی میں معمولی نقص معاف ہے۔ الخ (معالم السنن 2/ 199 تحت ح683)

معلوم ہوا کہ اگر سینگ میں معمولی نقص ہو یا تھوڑا سا کٹا یا ٹوٹا ہوا ہو تو اس جانور کی قربانی جائز ہے۔

نووی نے کہا:

اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ (المجموع شرح المہذب 8/ 404)

نمبر 6:

رسول اللہ ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ قربانی کا گوشت، کھا لیں اور جھولیں لوگوں میں تقسیم کر دیں اور قصاب کو اُس میں سے (بطورِ اجرت) کچھ بھی نہ دیں۔ دیکھئے صحیح بخاری (1717) و صحیح مسلم (1317)اور یہی مضمون فقرہ نمبر 27

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو جانور اللہ کے تقرب کے لئے ذبح کیا جائے (مثلاً قربانی اور عقیقہ) اس کا بیچنا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے شرح السنۃ للبغوی (7/188ح 1951)

نمبر 7:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ نے دو سفید و سیاہ اور سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھ سے ذبح فرمائے، آپ نے تسمیہ و تکبیر (بسم اللہ واللہ اکبر) کہی اور اپنا پاؤں اُن کی گردنوں پر رکھا۔ (صحیح مسلم: 1966، ترقیم دارالسلام: 5087، صحیح بخاری: 5564)

آپ ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ چُھری کو پتھر سے تیز کرو۔ پھر آپ نے مینڈھے کو لٹا کر ذبح کیا اور فرمایا: بسم اللہ، اے میرے اللہ! محمد، آلِ محمد اور امتِ محمد (ﷺ) کی طرف سے قبول فرما۔ (صحیح مسلم: 1967، دارالسلام: 5091)

نمبر 8:

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ والے سال سات (آدمیوں) کی طرف سے (ایک) اونٹ اور سات کی طرف سے (ایک) گائے ذبح کی۔ (صحیح مسلم: 1318، ترقیم دارالسلام: 3185)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ اضحی(عید قربان) آ گئی تو ہم نے (ایک) گائے میں سات (آدمی) اور (ایک) اونٹ میں دس (آدمی) شریک کئے۔ (سنن الترمذی: 1501، وقال: ’’حسن غریب‘‘ الخ وسندہ حسن)

ان احادیث سے ثابت ہوا کہ اونٹ میں سات یا دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں اور گائے میں صرف سات حصہ دار ہوتے ہیں۔ بکری اور مینڈھے میں اتفاق ہے کہ صرف ایک آدمی کی طرف سے ہی کافی ہے۔

حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سفر میں قربانی کرنا جائز ہے۔

نمبر 9:

نمازِ عید کے بعد قربانی کرنی چاہئے۔ دیکھئے صحیح بخاری (5545) و صحیح مسلم (1961)

عید کی نماز سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے۔ نیزدیکھئے فقرہ نمبر 24

نمبر 10:

سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:

مسلمانوں میں سے کوئی (مدینہ میں) اپنی قربانی خریدتا تو اسے (کھلا پلا کر) موٹا کرتا پھر اضحی کے بعد آخری ذوالحجہ (!) میں اسے ذبح کرتا تھا۔ (المستخرج لابی نعیم بحوالہ تغلیق التعلیق 5/6 وسندہ صحیح، وقال احمد: ’’ھذا الحدیث عجب‘‘ صحیح البخاری قبل ح 5553 تعلیقاً)

تنبیہ: ’’مدینہ میں‘‘ والے الفاظ صحیح بخاری میں ہیں۔

نمبر 11:

میت کی طرف سے قربانی کا ذِکر جس حدیث میں آیا ہے وہ شریک القاضی اور حکم بن عتیبہ دو مدلسین کی تدلیس (عن سے روایت کرنے) اور ابو الحسناء مجہول کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے سنن ابی داود (2790 بتحقیقی) سنن الترمذی (1495) اور اضواء المصابیح (1462)

تاہم صدقے کے طور پر میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے لہٰذا اس قربانی کا سارا گوشت اور کھال وغیرہ مسکین یا مساکین کو صدقے میں دینا ضروری ہے۔

تنبیہ: عام قربانی (جو صدقہ نہ ہو) کی کھال خود استعمال میں لائیں یا کسی دوست کو تحفہ دے دیں، یا کسی مسکین کو صدقہ کر دیں لیکن یاد رہے کہ زکوٰۃ کی آٹھ اقسام میں قربانی کی کھالیں تقسیم کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

نمبر 12:

سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

ہم ایک بکری کی قربانی کیا کرتے تھے، آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھرو الوں کی طرف سے (ایک بکری قربان کرتا تھا) پھر بعد میں لوگوں نے ایک دوسرے پر فخر (اور ریس) کرنا شروع کر دیا۔

(موطأ امام مالک ج2ص 486 ح 1069، وسندہ صحیح، النسخۃ الباکستانیہ ص 497، السنن الکبریٰ للبیہقی 9/268، سنن الترمذی: 1505، وقال: ’’حسن صحیح‘‘ سنن ابن ماجہ: 3147 وصححہ النووی فی المجموع شرح المہذب 8/ 384)

سنن ابن ماجہ وغیرہ میں اس بات کی صراحت ہے کہ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ اور صحابہ کا یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہوتا تھا۔ (وسندہ حسن)

معلوم ہوا کہ اگر گھر کا سربراہ یا کوئی آدمی ایک قربانی کر دے تو وہ سارے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔

نمبر 13:

عید گاہ میں قربانی کرنا جائز ہے اور عید گاہ کے باہر اپنے گھر وغیرہ میں قربانی کرنا بھی جائز ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (5552، 5551)

نمبر 14:

قربانی کا جانور خود ذبح کرنا سنت ہے اور دوسرے سے ذبح کروانا بھی جائز ہے۔ دیکھئے الموطأ (روایۃ ابن القاسم: 145، بتحقیقی و سندہ صحیح، السنن الصغریٰ للنسائی 7/231 ح4424، مسند احمد 3/ 388)

نمبر 15:

رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائیں ذبح کی تھیں۔ (صحیح بخاری: 5559، صحیح مسلم: 1211)

تنبیہ: جن روایات میں آیا ہے کہ گائے کے گوشت میں بیماری ہے، اُن میں سے ایک بھی صحیح ثابت نہیں ہے۔

نمبر 16:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

بنو تغلب والے عیسائیوں کے ذبیحے نہ کھاؤ کیونکہ وہ اپنے دین میں سے سوائے شراب نوشی کے کسی پر بھی قائم نہیں ہیں۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 9/ 284 وسندہ صحیح)

معلوم ہوا کہ مرتدین اور ملحدین کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔

نمبر 17:

قربانی کا گوشت خود کھانا ضروری نہیں بلکہ مستحب ہے۔ نیز دیکھئے فقرہ نمبر 19

نمبر 18:

ایک دفعہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ میں قربانی کی اور سر منڈوایا، آپ فرماتے تھے:

جو شخص حج نہ کرے اور قربانی کرے تو اُس پر سر منڈوانا واجب نہیں ہے۔

(السنن الکبریٰ للبیہقی 9/ 288 وسندہ صحیح، الموطأ 2/483 ح 1062)

نمبر 19:

قربانی کا گوشت خود کھانا، دوستوں رشتہ داروں کو کھلانا اور غریبوں کو تحفتاً دینا تینوں طرح جائز ہے۔ مثلاً دیکھئے سورۃ الحج (آیت نمبر 28، 36، اور فتاویٰ ابن تیمیہ 26/309 وغیرہ)

نمبر 20:

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:

جو شخص قربانی کے جانور (بیت اللہ کی طرف) روانہ کرے پھر وہ گم ہو جائیں، اگر نذر تھی تو اسے دوبارہ بھیجنے پڑیں گے اور اگر نفلی قربانی تھی تو اس کی مرضی ہے دوبارہ قربانی کر ے یا نہ کرے۔ (السنن الکبریٰ 9/ 289 وسندہ صحیح)

نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث: 52 ص 12، 13

نمبر 21:

سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے جانوروں میں ایک کانی اونٹنی دیکھی تو فرمایا:

اگر یہ خریدنے کے بعد کانی ہوئی ہے تو اس کی قربانی کر لو اور اگر خریدنے سے پہلے یہ کانی تھی تو اسے بدل کر دوسری اونٹنی کی قربانی کرو۔ (السنن الکبریٰ 9/ 289 وسندہ صحیح)

نمبر 22:

قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت اس کا چہرہ قبلہ رخ ہونا چاہئے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اس ذبیحے کا گوشت کھانا مکروہ سمجھتے تھے جسے قبلہ رخ کئے بغیر ذبح کیا جاتا تھا۔ (مصنف عبدالرزاق 4/ 489 ح 8585 وسندہ صحیح)

نمبر 23:

منکرینِ حدیث قربانی کی سنیت کے منکر ہیں حالانکہ متواتر احادیث و آثار سے قربانی کا سنت ہونا ثابت ہے اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ ہر جاندار میں ثواب ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (2363) وصحیح مسلم (2244)

نمبر 24:

اگر قربانی کا ارادہ رکھنے والا کوئی شخص ناخن یا بال کٹوا دے اور پھر قربانی کرے تو اس کی قربانی ہو جائے گی لیکن وہ گناہگار ہوگا۔ (الشرح الممتع علیٰ زاد المستقنع لابن عثیمین 3/430)

نمبر 25:

قربانی ذبح کرنے والا اور شرکت کرنے والے حصہ دار سب صحیح العقیدہ ہونے چاہئیں۔

نمبر 26:

اگر کسی کی طرف سے قربانی کی جائے تو ذبح کے وقت اس کا نام لیتے ہوئے یہ کہنا چاہئے کہ یہ قربانی اس (فلاں) کی طرف سے ہے۔

نمبر 27:

قولِ راجح میں قربانی کے تین دن ہیں۔ دیکھئے الحدیث: 44 ص 6 تا11

قربانی کے بارے میں اجماعی مسائل:

آخر میں قربانی کے بارے میں امام ابن المنذر النیسابوری کی مشہور کتاب الاجماع سے اجماعی مسائل پیشِ خدمت ہیں:

1- اجماع ہے کہ قربانی کے دن طلوع فجر (صبح صادق) سے پہلے قربانی جائز نہیں۔

2- اجماع ہے کہ قربانی کا گوشت مسلمان فقیروں کو کھلانا مباح ہے۔

3- اجماع ہے کہ اگر جائز آلہ سے قربانی کرے، بسم اللہ پڑھے، حلق اور دونوں رگیں کاٹ دے اور خون بہا دے، تو ایسے قربان شدہ جانور کا کھانا مباح ہے۔

4- اجماع ہے کہ گونگے کا ذبیحہ جائز ہے۔

5- اجماع ہے کہ ذبیحہ کے پیٹ سے بچہ مردہ برآمد ہو تو اسکی ماں کی قربانی اس کے لئے کافی ہو گی۔

6- اجماع ہے کہ عورتوں اور بچوں کا ذبیحہ مباح ہے اگر صحیح طریقہ سے ذبح کر سکیں۔

7- اجماع ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے اگر بسم اللہ پڑھ کر ذبح کریں۔

8- اجماع ہے کہ دارالحرب میں مقیم (اہل کتاب) کا ذبیحہ حلال ہے۔

9- اجماع ہے کہ مجوس کا ذبیحہ حرام ہے، کھایا نہیں جائے گا۔

10- اجماع ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں اور بچوں کا ذبیحہ حلال ہے (بسم اللہ کی شرط کے ساتھ)

(دیکھئے کتاب الاجماع ص 52، 53، مترجم ابو القاسم عبدالعظیم)

اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ 122، صفحہ 17 تا 25