قربانی کے احکام و مسائل با دلائل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


الحمد للّٰہ ربّ العالمین والصّلٰوۃ والسّلام علٰی رسولہ الأمین، أما بعد:

اس مختصر و جامع مضمون میں قربانی کے بعض احکام و مسائل بادلائل پیشِ خدمت ہیں:

قربانی سنت موکدہ ہے

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

آج (عیدالاضحی) کے دن ہم سب سے پہلے نماز پڑھیں گے، پھر واپس آ کر قربانی کریں گے۔ (ان شاء اللہ)

جس نے ایسا کیا تو ہماری سنت کو پا لیا اور جس نے (نماز سے) پہلے ذبح کر لیا تو اس کی قربانی نہیں ہے۔

(صحیح بخاری باب سنۃ الأضحیۃ ح 5545)

بعض علماء کے نزدیک قربانی واجب ہے، لیکن اس پر اُن کے پاس کوئی صریح دلیل نہیں، جبکہ صحیح مسلم کی حدیث (1977، ترقیم دارالسلام: 5119) سے قربانی کا عدمِ وجوب ثابت ہے، نیز سیدنا ابو بکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما دونوں کے نزدیک قربانی واجب نہیں ہے۔ (دیکھئے معرفۃ السنن والآثار 7/ 198، وسندہ حسن)

امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:

قربانی سنت ہے واجب نہیں ہے اور جو شخص اس کی طاقت رکھے تو مجھے پسند نہیں ہے کہ وہ اسے ترک کر دے۔

(موطأ امام مالک 2/ 487)

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

قربانی کرنا سنت ہے (اور) میں اسے ترک کرنا پسند نہیں کرتا۔

(کتاب الام ج1ص 221)

ثابت ہوا کہ عید الاضحی کے موقع پر نمازِ عید کے بعد قربانی کرنا سنت موکدہ ہے اور شرعی عذر کے بغیر قربانی نہ کرنا ناپسندیدہ ہے۔

بعض منکرینِ حدیث نے بہت سے عقائد و مسائل ضروریہ کے انکار کے ساتھ، قربانی کے سنت ہونے کا بھی انکار کر دیا ہے، حالانکہ قربانی کا ثبوت احادیث صحیحہ متواترہ بلکہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔ (مثلاً دیکھئے سورۃ الصافات: 107، الحج: 34، الانعام: 162)

قربانی کا اصطلاحی مفہوم

عیدالاضحی کی نماز کے بعد پہلے دن یا قربانی کے دنوں میں بہیمۃ الانعام (مثلاً بکری، بھیڑ، گائے اور اونٹ) میں سے کسی جانور کو شرعی طریقے پر بطورِ قربانی و تقرب ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔

تنبیہ: شہر ہو یا گاؤں ہو، نمازِ عید سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔

قربانی کرنے والے کے لئے اہم شرائط

1) قربانی کرنے والے کا صحیح العقیدہ مسلمان و متبعِ کتاب و سنت ہونا اور شرک، کفر و بدعات سے پاک ہونا ضروری ہے اور جس کا عقیدہ خراب ہو، اس کا کوئی عمل قابلِ قبول نہیں ہے۔ قرآن، حدیث اور اجماع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر وقت اپنے ایمان و عمل کا خاص خیال رکھیں۔

2) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ کرے تو اسے اپنے بال اور ناخن تراشنے سے رُک جانا چاہئے۔ (صحیح مسلم: 1977)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قربانی کرنے والے شخص کو یکم ذوالحجہ سے لے کر قربانی کرنے تک اپنے بال نہیں کاٹنے چاہئیں اور ناخن نہیں تراشنے چاہئیں۔

اگر کسی کا ناخن ٹوٹ جائے یا ایسی خرابی ہو جائے کہ ناخن تراشنا ضروری ہو تو پھر ایسا کرنا جائز ہے جیسا کہ اجماع سے ثابت ہے۔

3) ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے پوچھا: اگر مجھے صرف مادہ جانور (دودھ دینے والا) قربانی کے لئے ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر لوں؟

آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، لیکن تم ناخن اور بال کاٹ لو، مونچھیں تراش لو اور شرمگاہ کے بال مونڈ لو تو اللہ کے ہاں یہ تمھاری پوری قربانی ہے۔ (سنن ابی داود: 2789 و سندہ حسن)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قربانی کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ اگر یکم ذوالحجہ سے لے کر نمازِ عید تک بال نہ کٹوائے اور ناخن نہ تراشے تو اسے پوری قربانی کا ثواب ملتا ہے۔ سبحان اللہ

قربانی کا مقصد

قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا اور رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ مطہرہ پر خلوصِ نیت سے عمل کرنا ہے اور ان شاء اللہ اس کا بہت بڑا ثواب ملے گا۔

قربانی کے جانور کی شرائط

کس قسم کے جانور کی قربانی کرنی چاہئے اور اس کی کیا شرائط ہیں؟ مختلف فقروں اور نمبروں کی صورت میں اس کی تفصیل پیشِ خدمت ہے:

1) قربانی صرف مُسنہ یعنی دوندے جانور کی ہی جائز ہے اور اگر تنگی کی وجہ سے دوندا نہ مل سکے تو پھر بھیڑ (دنبے) کا جذعہ (ایک سال کے دنبے) کی قربانی جائز ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم: 1963)

تنگی سے مراد صرف یہ ہے کہ مارکیٹ اور منڈی میں پوری کوشش اور تلاش کے باوجود دوندا جانور نہ مل سکے۔

2) حدیث سے ثابت ہے کہ چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے:

الف: واضح طور پر کانا جانور

ب: واضح طور پر بیمار

ج: واضح طور پر لنگڑا

د: اور بہت زیادہ کمزور جانور جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔

(دیکھئے سنن ابی داود: 2802 وسندہ صحیح)

3) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگ کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔

امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسا جانور جس کا آدھا سینگ یا اس سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔ (سنن ترمذی: 1504، وقال: حسن صحیح)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا: (قربانی کے جانور میں) آنکھ اور کان دیکھیں۔ (سنن ترمذی: 1503، وقال: حسن صحیح)

اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ (المجموع شرح المہذب 8/ 404)

امام خطابی رحمہ اللہ (متوفی 388 ھ) نے فرمایا: اس حدیث (جو فقرہ نمبر 2 میں گزر چکی ہے) میں یہ دلیل ہے کہ قربانی (والے جانور) میں معمولی نقص معاف ہے۔ (معالم السنن 2/ 199)

عبید بن فیروز (تابعی) نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ (صحابی) سے کہا: مجھے ایسا جانور بھی ناپسند ہے جس کے دانت میں نقص ہو۔

انھوں نے فرمایا: تمھیں جو چیز بُری لگے اسے چھوڑ دو اور دوسروں پر اُسے حرام نہ کرو۔

(سنن ابی داود: 2803 وسندہ صحیح)

تنبیہ: اگر کسی جانور کے سینگ پر معمولی رگڑ ہو یا اس کے اوپر والی ٹوپی ٹوٹ گئی ہو تو امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی مذکورہ روایت کی رُو سے اس کی قربانی جائز ہے۔ (نیز دیکھئے متفرق مسائل فقرہ نمبر 8)

قربانی کی کھالیں

قربانی کی کھالیں مسکین لوگوں میں تقسیم کر دیں، جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ والی حدیث سے ثابت ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم: 1317)

ذبح کرنے والے یا قصاب کو اُجرت میں قربانی کی کھالیں دینا جائز نہیں ہے اور اسی طرح اُجرت میں قربانی کا گوشت دینا بھی جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔

گوشت کی تقسیم

قربانی کا سارا گوشت خود کھانا یا ذخیرہ کر لینا جائز ہے اور اس کے تین حصے کر کے ایک حصہ اپنے لئے، ایک غریب مسکین لوگوں کے لئے اور ایک رشتہ داروں دوستوں کے لئے مخصوص کرنا بھی جائز ہے، بلکہ یہ بہتر ہے۔ (نیز دیکھئے سورۃ الحج کی آیت نمبر 28، 36)

قربانی کے حصے اور شراکت

بکری اور دُنبے بھیڑ کا صرف ایک حصہ ہوتا ہے، لیکن گائے، بیل اور اونٹ اونٹنی میں سات حصے صحیح حدیث سے ثابت ہیں اور ایک حسن روایت سے اونٹ، اونٹنی میں دس حصوں کا بھی ثبوت ہے۔ (دلیل کے لئے دیکھئے صحیح مسلم: 1318، سنن ترمذی: 1501، وقال: حسن غریب)

تنبیہ: صرف صحیح العقیدہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر سات یا دس حصوں میں شراکت ہو سکتی ہے اور اہلِ بدعت، گمراہ وضال مضل لوگوں کے ساتھ مل کر کبھی قربانی نہیں کرنی چاہئے اور نہ ایسے گمراہوں کے کسی عمل کا کوئی وزن ہے، بلکہ ایسے لوگوں کے تمام اعمال ھباءً ا منثورًا کر کے ہوا میں اُڑا دیئے جائیں گے۔ ان شاء اللہ

متفرق مسائل

آخر میں قربانی کے بارے میں کئی متفرق مسائل فقرات کی صورت میں پیشِ خدمت ہیں:

1) جانور کو ذبح کرتے وقت تسمیہ و تکبیر (بسم اللہ و اللہ اکبر ) کہنا سنت سے ثابت ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم: 1966، صحیح بخاری: 5564)

صرف بسم اللہ پڑھنا بھی ثابت ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم: 1967)

2) پورے گھر کی طرف سے ایک قربانی بھی کافی ہے۔ (سنن الترمذی: 1505، وقال: حسن صحیح)

اور گھر کے دوسرے افراد بھی قربانیاں کر سکتے ہیں۔

3) میت کی طرف سے قربانی کرنا ثابت نہیں اور اس بارے میں جو روایت آئی ہے، اس کی سند شریک قاضی و حکم بن عتیبہ مدلسین کی عن سے روایت اور ابو الحسن کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ یا کسی میت کی طرف سے قربانی کرے تو اس کا سارا گوشت اور کھال وغیرہ صدقہ کر دے۔

4) قربانی کا جانور پہلے سے خرید کر اسے کھلا پلا کر موٹا کرنا جائز ہے۔ (دیکھئے تغلیق التعلیق 5/ 6 وسندہ صحیح)

5) عید گاہ میں قربانی کرنا جائز ہے اور عیدگاہ کے باہر مثلاً اپنے گھر میں یا گھر سے باہر وغیرہ میں قربانی کرنا بھی جائز ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری: 5552، 5551)

6) قربانی کا جانور خود ذبح کرنا سنت ہے اور دوسرے سے ذبح کروانا بھی جائز ہے۔ (دیکھئے موطأ امام مالک، روایۃ ابن القاسم بتحقیقی: 145)

7) اگر مسنون یا نفلی قربانی کا جانور گم ہو جائے تو جانور کے مالک کی مرضی ہے کہ دوسرا جانور لے کر قربانی کرے یا قربانی نہ کرے۔ (دیکھئے السنن الکبریٰ 9/ 289 وسندہ صحیح)

8) سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے جانوروں میں ایک کانی اونٹنی دیکھی تو فرمایا: اگر یہ خرید نے کے بعد کانی ہوئی ہے تو اس کی قربانی کر لو اور اگر خریدنے سے پہلے یہ کانی تھی تو اسے بدل کر دوسری اونٹنی کی قربانی کرو۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 9/ 289 وسندہ صحیح)

ثابت ہوا کہ اگر قربانی کا جانور خرید لیا جائے اور اس کے بعد اس میں کوئی نقص واقع ہو جائے تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے۔

9) اگر قربانی کا ارادہ رکھنے والا کوئی شخص ناخن یا بال کٹوا دے اور پھر قربانی کرے تو اس کی قربانی ہو جائے گی، لیکن یہ شخص گناہ گار ہو گا۔ (الشرح الممتع 3/ 430)

10) اگر کسی دوسرے کی طرف سے قربانی کی جائے تو ذبح کرتے وقت اس آدمی کا نام لیتے ہوئے یہ کہنا چاہئے کہ یہ قربانی اُس کی طرف سے ہے۔

تنبیہ: اس سلسلے میں تفصیلی دلائل و مسائل کے لئے دیکھئے میری کتاب: تحقیقی مقالات (2/ 211۔ 219)

11) خصی جانور کی قربانی جائز ہے اور اس کے ناجائز ہونے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔

12) اگر کسی آدمی کو اللہ نے مال و دولت عطا کیا ہوا ہے تو وہ کئی قربانیاں کر سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے اس عمل سے غرباء و مساکین اور عام مسلمانوں کا فائدہ ہو گا۔

13) گائے کا گوشت کھانا بالکل حلال ہے اور کسی قسم کی کسی بیماری کا کوئی خطرہ نہیں ہے اِلا یہ کہ کوئی شخص بذاتِ خود ہی بیمار ہو۔ جس روایت میں آیا ہے کہ گائے کے گوشت میں بیماری ہے، وہ روایت ضعیف ہے اور اسے صحیح قرار دینا غلط ہے۔

14) اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم (360، دارالسلام: 802) کی حدیث سے ثابت ہے اور دوسرا گوشت مثلاً گائے، بکری اور بھیڑ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔

15) قربانی کا اصل مقصد یہ ہے کہ تقویٰ حاصل ہو، لہٰذا ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ (دیکھئے سورۃ الحج: 37)

16) قربانی کے جانور (مثلاً گائے) میں عقیقے کے حصے شامل کر دینا جائز نہیں اور یاد رہے کہ عقیقے میں صرف بکرا بکری یا بھیڑ دنبے ذبح کرنا ہی ثابت ہے، لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک۔ عقیقہ علیحدہ کرنا چاہئے اور قربانی علیحدہ کرنی چاہئے۔

جھوٹ بولنے، غیبت کرنے، چغلی کھانے اور ہر قسم کے کبیرہ گناہوں سے اپنے آپ کو ہمیشہ بچائیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اور ہمارے اعمال اپنے دربار میں قبول فرمائے۔ آمین

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی اور علمی مقالات جلد 5 صفحہ 199، جلد 2 صفحہ 211 اور ماہنامہ الحدیث شمارہ 122 صفحہ 17، شمارہ 55 صفحہ 49۔