رسول اللہ ﷺ اور بعض غیب کی اطلاع

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

رسول اللہ ﷺ کو دی گئی غیبی خبریں اور علمِ غیب سے متعلق علمائے اہلِ سنت کا موقف کیا ہے؟

الجواب:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿قُلْ لاَّ یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلاَّ اللہُ﴾

کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے الغیب نہیں جانتا مگر اللہ جانتا ہے۔

(النمل:65)

اس آیتِ کریمہ کی تشریح میں امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد ﷺ سے فرماتا ہے کہ اے محمد! (ﷺ) قیامت کے بارے میں پوچھنے والے مشرکین سے جو کہتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ کہہ دو! اللہ نے جو علم اپنے پاس رکھا ہے اور مخلوق سے اُسے چھُپا دیا ہے اُس الغیب کو آسمانوں اور زمین میں کوئی نہیں جانتا اور قیامت بھی اسی (الغیب) میں سے ہے۔ (تفسیر طبری ج20ص 5)

اس آیتِ کریمہ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے استدلال کر کے فرمایا:

’’وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ یَعْلَمُ مَا فِی غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَی اللہِ الْفِرْیَۃَ‘‘

اور جس نے دعویٰ کیا کہ محمد ﷺ جانتے تھے جو کل ہوگا تو اس نے اللہ پر بڑا افتراء باندھا، یعنی بہت بڑا جھوٹ بولا۔

(کتاب التوحید لابن خزیمہ ص 223 ح 324 وسندہ صحیح، المستخرج لابی نعیم الاصبہانی 1/ 242 ح 442 وسندہ صحیح، صحیح ابی عوانہ ج1ص 154ح 304)

معلوم ہوا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے، نیز اُس کا علم ہر وقت ہر چیز کو محیط ہے، وہ ’’جمیع ماکان و جمیع ما یکون‘‘ کا علم جانتا ہے اور کوئی چیز بھی اُس کے علم سے باہر نہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

((مَفَاتِحُ الغَیْبِ خَمْسٌ لاَ یَعْلَمُہَا إِلَّا اللہُ: لاَ یَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ إِلَّا اللہُ، وَلاَ یَعْلَمُ مَا تَغِیضُ الأَرْحَامُ إِلَّا اللہُ، وَلاَ یَعْلَمُ مَتَی یَأْتِی المَطَرُ أَحَدٌ إِلَّا اللہُ، وَلاَ تَدْرِی نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ، وَلاَ یَعْلَمُ مَتَی تَقُومُ السَّاعَۃُ إِلَّا اللہُ))

’’غیب کی پانچ چابیاں ہیں جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا: کل کیا ہوگا؟ اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ارحام میں کیا پوشیدہ ہے؟ اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب ہوگی، کسی جاندار کو یہ معلوم نہیں کہ زمین کے کس (حصے پر) اُس کی موت آئے گی اور اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی۔‘‘

(صحیح بخاری: 4697)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((أُوتِیتُ مَفَاتِیحَ کُلِّ شَيْءٍ إِلَّا الْخَمْسَ))

’’مجھے ہر چیز کی چابیاں دی گئی ہیں سوائے پانچ کے۔‘‘

پھر آپ نے سورۂ لقمان (آیت: 34) کی تلاوت فرمائی۔

(مسند احمد 2/ 85۔86 ح 5579 وسندہ صحیح، المعجم الکبیر للطبرانی 12/ 360۔ 361 ح 13344)

تنبیہ: شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کو بڑی غلطی لگی ہے کہ انھوں نے ذکر اور عدمِ ذکر والے فلسفے کی رُو سے اس حدیث کو ’’شاذ أولہ‘‘ قرار دے کر اپنے سلسلہ ضعیفہ(7/ 348 ح 3335) میں نقل کر دیا۔ جبکہ اُن کے برعکس شیخ احمد محمد شاکر المصری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا: ’’إسنادہ صحیح‘‘ اس کی سند صحیح ہے۔ (المسند بتحقیق احمد شاکر 7/ 276)

اس حدیث سے دو باتیں صاف ثابت ہیں:

1- نبی ﷺ کو پانچ چیزوں کی چابیاں نہیں دی گئیں۔

2- ان پانچ چیزوں کے علاوہ ہر چیز کی چابیاں آپ ﷺ کو دے دی گئیں۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’أُوتِيَ نَبِیُّکُمْ ﷺ مَفَاتِیحَ کُلِّ شَيْءٍ غَیْرَ خَمْسٍ‘‘

آپ کے نبی ﷺ کو پانچ کے علاوہ سب چابیاں عطا کی گئیں۔ پھر انھوں نے سورۂ لقمان (آیت: 34) کی تلاوت فرمائی۔

(مسند احمد 1/ 386 ح 3659 وسندہ حسن، مسند الحمیدی بتحقیقی: 125، وقال ابن کثیر: ’’وھذا إسناد حسن‘‘ إلخ)

اس حدیث کے راوی عبداللہ بن سلمہ جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث ہیں۔ (دیکھئے مسند الحمیدی بتحقیقی کا حاشیہ ح 57)

عمرو بن مرہ کی روایت کی وجہ سے یہ حدیث عبداللہ بن سلمہ کے اختلاط سے پہلے کی ہے۔ اس سلسلے میں مفصل دلائل کے لئے کتبِ حدیث کی طرف رجوع فرمائیں۔

ایک آیتِ کریمہ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر الدمشقی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’إِنَّ اللہَ یَعْلَمُ الْغَیْبَ جَمِیعَہُ۔۔۔‘‘

بے شک اللہ سارا (کُل کا کُل) غیب جانتا ہے۔۔۔

(تفسیر ابن کثیر 4/ 403، الانبیاء: 110)

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ سے فرمایا:

﴿قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لاَ ضَرًّا اِلاَّ مَا شَآءَ اللہُ - وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَ سْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ - وَمَا مَسَّنِیَ السُّوؔءُ﴾

’’کہہ دیجئے: میں اپنی جان کے لئے نفع اور نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے اور اگر میں الغیب جانتا تو بہت سی خیر جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔‘‘

(الاعراف: 188)

امام ابن جریر رحمہ اللہ نے لکھاہے:

اگر میں وہ جانتا جو ہونے والا ہے اور ابھی تک نہیں ہوا تو خیر کثیر اکٹھی کر لیتا۔ (تفسیر طبری 590/5، طبع دارالحدیث القاہرہ)

اب سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء اور رسول بھی اللہ تعالیٰ کی اطلاع اور وحی سے بعض غیب جانتے تھے؟ تو اس کے جواب سے پہلے جلیل القدر مفسرین کرام اور علمائے عظام کے دس (10) حوالے پیشِ خدمت ہیں:

حوالہ نمبر 1:

اہلِ سنت کے مشہور ثقہ امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری رحمہ اللہ (متوفی 310ھ) نے سورۃ الجن (آیت: 26۔ 27) کی تفسیر میں فرمایا:

’’فَلَا یُظْہِرُ عَلَی غَیْبِہِ أَحَدًا، فَیُعْلِمُہُ أَوْ یُرِیہِ إِیَّاہُ ﴿إِلَّا مَنِ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ﴾ فَإِنَّہُ یُظْہِرُہُ عَلَی مَا شَاءَ مِنْ ذَلِکَ‘‘

پس وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، تا کہ وہ اسے جان لے یا دیکھ لے، ’’سوائے رسول کے جس پر وہ راضی ہے‘‘ تو اُسے اس میں سے جو چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔

(تفسیر طبری ج29ص 76)

حوالہ نمبر 2:

امام ابن جریر سے تقریباً دوصدیاں پہلے مفسر قرآن امام قتادہ بن دعامہ البصری رحمہ اللہ (متوفی 117ھ) نے فرمایا:

’’﴿إِلَّا مَنِ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ﴾ فَإِنَّہُ یُظْہِرُہُ مِنَ الْغَیْبِ عَلَی مَا شَاءَ إِذَا ارْتَضَاہُ‘‘

’’سوائے جس رسول پر وہ راضی ہو‘‘، تو اسے غیب میں سے جو چاہتا ہے بتا دیتا ہے۔ اگر اُس (یعنی اللہ تعالیٰ) کی رضا مندی ہو۔

(تفسیر ابن جریر الطبری 29/77 وسندہ صحیح)

حوالہ نمبر 3:

امام ابو محمد حسین بن مسعود البغوی الفراء رحمہ اللہ (متوفی 516ھ) نے سورۂ آل عمران (آیت: 179) کی تفسیر میں فرمایا:

’’فَیُطْلِعُہُ عَلَی بَعْضِ عِلْمِ الْغَیْب‘‘

پس وہ (اللہ) اسے(اپنے رسول کو) بعض علم غیب پر مطلع فرما تا ہے۔

(تفسیر بغوی ج1ص 378)

امام بغوی کی اس تفسیر سے صاف ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو غیب (کی خبروں) میں سے بعض کا علم عطا فرمایا تھا۔

حوالہ نمبر 4:

امام ابو الحسن علی بن احمد الواحدی النیسابوری رحمہ اللہ (متوفی 468ھ) نے فرمایا:

’’والمعنی أن من ارتضاہ [للرسالۃ والنبوۃ] فإنہ یطلعہ علٰی ما شاء من غیبہ‘‘

اور معنی یہ ہے کہ جسے وہ رسالت اور نبوت کے لیے چُن لے تو اُسے اپنے غیب میں سے جس پر چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔

(الوسیط فی تفسیر القرآن المجید 4/ 369، الجن: 26۔27)

حوالہ نمبر 5:

حافظ ابن الجوزی (متوفی 597ھ) نے فرمایا:

’’والمعنی: أن من ارتضاہ للرسالۃ أطلعہ علٰی ماشاء من غیبہ‘‘

اور معنی یہ ہے: جسے وہ رسالت کے لئے چُن لے تو اپنے غیب میں سے جس پر چاہے اُسے اطلاع دے دیتا ہے۔

(زاد المسیر 8/385، الجن: 26۔27)

حوالہ نمبر 6:

قاضی ابو بکر محمد بن عبداللہ عرف ابن العربی المالکی (متوفی 543ھ) نے منافقین کا رد کرتے ہوئے فرمایا:

’’وأنّ اللہ یطلعہ علٰی ماشاء من غیبہ‘‘

اور بے شک اللہ اسے (سیدنا محمد ﷺ کو) اپنے غیب میں سے جو چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔

(احکام القرآن 2/ 1033، التوبہ: 127)

حوالہ نمبر 7:

ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی الانصاری (متوفی 671ھ) نے فرمایا:

’’فإنہ یظھرہ علٰی مایشاء من غیبہ لأنّ الرسل مؤیدون بالمعجرات و منھا الإخبار عن بعض الغائبات‘‘

پس وہ انھیں اپنے غیب میں سے جو چاہے اطلاع دیتا ہے، کیونکہ رسولوں کی معجزات کے ساتھ تائید کی گئی اور ان (معجزات) میں سے بعض غیبوں کی خبر دینا (بھی) ہے۔

(تفسیر قرطبی 19/ 27۔ 28، الجن: 26۔27)

نیز دیکھئے تفسیر قرطبی (ج8ص 299، التوبہ: 127)

حوالہ نمبر 8:

امام ابو حیان محمد بن یوسف الاندلسی (متوفی 745ھ) نے فرمایا:

’’فَإِنَّہُ یُظْہِرُہُ عَلَی مَا یَشَاءُ مِنَ ذَلِکَ‘‘

پس وہ اس (غیب) میں سے جو چاہے، آپ (ﷺ) کو اطلاع دے دیتا ہے۔

(البحر المحیط ج8ص 348، الجن: 26۔ 27)

حوالہ نمبر 9:

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی 728ھ) نے بعض انبیاء کے بارے میں فرمایا:

’’وَمِنْہُمْ مَنْ أَطْلَعَہُ عَلَی مَا شَاءَ مِنْ غَیْبِہِ‘‘

اور اُن میں سے وہ بھی ہیں جنھیں اُس (اللہ) نے اپنے غیب میں سے بعض پر اطلاع فرمائی۔

(مجموع فتاویٰ 28/ 605)

حوالہ نمبر 10:

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (متوفی 751ھ) نے فرمایا:

’’اسْتِدْرَاکٌ لِمَا نَفَاہُ مِنَ اطِّلَاعِ خَلْقِہِ عَلَی الْغَیْبِ سِوَی الرُّسُلِ، فَإِنَّہُ یُطْلِعُہُمْ عَلَی مَا یَشَاءُ مِنْ غَیْبِہِ……‘‘

’’اور لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے چُن لیتا ہے‘‘نفی پر استدراک ہے کہ اللہ اپنی مخلوقات میں سے رسولوں کے سوا کسی کو غیب پر اطلاع نہیں دیتا، پس وہ جو چاہتا ہے اپنے غیب میں سے انھیں اطلاع دے دیتا ہے۔۔۔

(زاد المعاد ج3ص 220 فضل فی ذکر بعض الحکم والغایات المحمودۃ ۔۔۔۔)

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر بیضاوی (1/ 195) تفسیر ثعلبی (3/ 219) ارشاد القاری للقسطلانی (7/186) الدر المصون فی علوم الکتاب المکنون(6/ 399) جلالین (ص92) اضواء البیان (2/ 196) اور التفسیر الصحیح لحکمت بشیر (4/ 548) وغیرہ۔

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے ایک آیت کی تفسیرمیں فرمایا:

’’فَإِنَّہُ یَقْتَضِي اطِّلَاعَ الرَّسُولِ عَلَی بَعْضِ الْغَیْبِ‘‘

پس اس کا یہ تقاضا ہے کہ رسول کو بعض غیب پر اطلاع دی جائے۔

(فتح الباری 8/ 514 تحت ح 4778)

آثار سلف صالحین، آیاتِ کریمہ اور احادیثِ صحیحہ کا اس مسئلے میں خلاصہ درج ذیل ہے:

1- صرف اللہ ہی عالم الغیب ہے اور یہ اس کی صفتِ خاصہ ہے جس میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔

2- جمیع ماکان و مایکون یعنی سارا اور کُلی علمِ غیب صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

3- پانچ چیزوں (مثلاً قیامت وغیرہ) کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور مخلوق میں سے کوئی بھی ان پانچ چیزوں کا علم نہیں جانتا۔

4- رسولوں اور انبیاء کو بعض علمِ غیب کی اطلاع دی گئی تھی۔

رسول اللہ ﷺ کے علمِ غیب کے بارے میں دو فرقوں کے متضاد نظریات درج ذیل ہیں:

1- رسول اللہ ﷺ تکمیلِ قرآن کے بعد جمیع ماکان و جمیع ما یکون کا علم باذن اللہ جانتے ہیں۔ یہ بریلویہ رضاخانیہ کا عقیدہ ہے۔

اس نظریے کی کوئی صریح دلیل قرآن، حدیث، ا جماع اور آثارِ سلف صالحین سے ثابت نہیں اور نہ تکمیلِ قرآن کی متعین تاریخ کا علم کسی حدیث یا خبر میں موجود ہے۔

اس جواب کے شروع میں گزر چکا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاتھا: اور جس (شخص) نے دعویٰ کیا کہ (سیدنا) محمد ﷺ جانتے تھے جو کل ہوگا، تو اس نے اللہ پر بڑا افتراء باندھا یعنی بہت بڑا جھوٹ بولا۔ (صحیح ابی عوانہ: 304)

ام المومنین رضی اللہ عنہا نے یہ بات مسروق تابعی کے سامنے فرمائی تھی، جس سے ثابت ہوا کہ اُن کا یہ قول رسول اللہ ﷺ کی وفات اور تکمیلِ قرآن کے بعد کا ہے۔

2- بعض لوگ ایک فلسفہ گھڑتے ہیں کہ جو غیب وحی یا اللہ کی طرف سے اطلاع و اخبار کے ذریعے سے معلوم ہو، اسے غیب نہیں کہتے، لہٰذا نبی ﷺ کسی قسم کا غیب نہیں جانتے تھے بلکہ ایک شخص نے میرے سامنے کہا: رسول اللہ ﷺ ایک ذرا برابر غیب بھی نہیں جانتے تھے۔ (أستغفراللہ، معاذ اللہ)

یہ بعض مبتدعہ اور جدید متکلمین کا عقیدہ ہے جس کی کوئی دلیل قرآن، حدیث، اجماع اور آثارِ سلف صالحین میں موجود نہیں، بلکہ یہ عقیدہ سراسر باطل اور صریح گمراہی ہے۔

بعض آلِ دیوبند نے نبی ﷺ کے علم کی وسعت کا انکار کیا اور دوسری طرف کہا:

’’شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی، فخر عالم کی وسعت علم کی کونسی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کرتا ہے۔۔۔‘‘

(دیکھئے براہین قاطعہ بجواب انوارِ ساطعہ ص 55)

عرض ہے کہ شیطان اور ملک الموت کی وسعتِ علم کے بارے میں نہ کوئی نص قطعی ہے، نہ خبر واحد صحیح اور نہ آثار میں سے کوئی صحیح اثر، لہٰذا مذکورہ عبارت باطل ہے اور نبی ﷺ کے علم کا شیطان کے باطل علم سے مقارنہ کرنا آپ ﷺ کی بہت بڑی توہین ہے۔

بعض آلِ دیوبند نے جمیع حیوانات وبہائم اور ہر صبی و مجنون کے ساتھ بعض علومِ غیبیہ کا انتساب کیا اور نبی ﷺ کے علم سے تشبیہانہ مقابلہ کیا۔ (دیکھئے اشرفعلی تھانوی کی حفظ الایمان مع التحریفات ص 116، طبع انجمن ارشاد المسلمین لاہور)

یہ سارا بیان باطل اور صریح گستاخی ہے۔ ان اہلِ بدعت کے مقابلے میں اہلِ سنت والجماعۃ (اہلِ حدیث) کا عقیدہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جو بعض غیب اللہ تعالیٰ نے بتایا، وہ آپ جانتے تھے اور جونہیں بتایا وہ نہیں جانتے تھے۔

حافظ ابن عبدالبر الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی 463ھ) نے ایک حدیث کی تشریح میں لکھا:

’’و فیہ أنہ کان ﷺ لا یعلم الغیب و إنما کان یعلم منہ ما یظھرہ اللہ علیہ‘‘

اور اس حدیث میں یہ (فقہ) ہے کہ بے شک آپ ﷺ غیب نہیں جانتے تھے اور آپ صرف وہ جانتے تھے جو اللہ آپ پر ظاہر فرماتا تھا۔

(التمہید لما فی الموطأ من المعانی والاسانید ج6ص 251)

ابو الولید الباجی (متوفی 494ھ) نے ایک حدیث کی تشریح میں فرمایا:

’’لأنہ لا یعلم من الغیب إلا ما اطلع علیہ بالوحي‘‘

کیونکہ بے شک آپ غیب میں سے نہیں جانتے تھے سوائے اُس کے جس کی آپ کو وحی کے ذریعے سے اطلاع دی گئی تھی۔

(المنتقیٰ شرح الموطأ ج7ص 129، کتاب الاقضیہ باب 1)

آخر میں بطورِ فائدہ اور بطورِ تنبیہ عرض ہے کہ مخلوق میں سے نبی کریم ﷺ کا علم سب سے زیادہ ہے۔

صحابۂ کرام کا یہ تکیۂ کلام تھا اور وہ کثرت سے فرمایا کرتے تھے کہ ’’اَللّٰہُ وَ رَسُولُہُ أَعلَم‘‘ یعنی اللہ اور اس کارسول سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ دیکھئے صحیح بخاری (53، 87، 425۔۔۔ 7447) صحیح مسلم (8[93] 17[116] 30[143]۔۔۔ 2969[7439]) اور موطأ امام مالک (1/ 192ح 452۔۔۔)

عبیدبن عمیربن قتادہ اللیثی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک دن (سیدنا) عمر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کے صحابہ سے کہا: یہ آیت: تمھارے خیال میں کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ تو انھوں نے کہا: ’’اللہ أعلم‘‘ اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے۔ تو عمر (رضی اللہ عنہ) غصے ہوئے اور فرمایا: کہو ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔۔۔ الخ (صحیح بخاری ج2ص 651ح 4538، فتح الباری ج8ص 202)

یعنی صاف صاف جواب دو۔ اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ’’اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ‘‘ نہیں کہنا چاہیے بلکہ صرف اللہ أعلم کہنا چاہئے۔

مستدرک الحاکم (ج3ص 543ح 6307، مخطوط مصور ج3ص 291) کی ایک روایت میں ’’اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور حاکم نے اسے ’’صحیح علٰی شرط الشیخین‘‘ قرار دیا، لیکن اس کی سند منقطع ہونے کی وجہ ضعیف ہے۔ اس کے راوی عبداللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں اور نہ روایت میں یہ صراحت ہے کہ انھوں نے اسے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا تھا۔ واللہ اعلم

مشہور اہل حدیث عالم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے لکھاہے:

’’ہاں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کی باتوں پر مطلع فرماتا ہے جس سے بعض دفعہ ان پر منافقین کا اور ان کے حالات اور ان کی سازشوں کا راز فاش ہو جاتا ہے۔‘‘

(احسن البیان ص 163، حاشیہ 3، آل عمران: 179)

ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اللہ ہی عالم الغیب ہے اور وہی الغیب جانتا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بعض غیب کی اطلاع فرمائی تھی۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 102 صفحہ 11 اور فتاویٰ علمیہ ’’باب: توحید و سنت کے مسائل‘‘ بعنوانہ