حالتِ سجدہ میں ہاتھوں کی انگلیاں ملانا؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’أن النبي ﷺ کان إذا سجد ضمّ أصابعہ‘‘

نبی ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیاں ملا لیتے تھے۔

(صحیح ابن خزیمہ: 642، صحیح ابن حبان، الاحسان: 1917، دوسرا نسخہ: 1920، المستدرک للحاکم 1/ 227 ح 826 وقال: ’’صحیح علیٰ شرط مسلم‘‘ ووافقہ الذہبی فی تلخیصہ، السنن الکبریٰ للبیہقی 2/ 112، المعجم الکبیر للطبرانی 22/ 19ح 26 وقال الہیثمی فی مجمع الزوائد 2/135: ’’إسنادہ حسن‘‘ سنن الدارقطنی 1/ 339 ح 1268، البدر المنیر لابن الملقن 3/ 668 وقال: ’’ھذا الحدیث صحیح‘‘، الاوسط لابن المنذر 3/ 169، اصل صفۃ الصلٰوۃ علی النبي ﷺ للالباني 2/ 726۔ 722 وقال: ’’ھو إسناد حسن‘‘)

اگرچہ بہت سے علماء نے اسے صحیح یا حسن کہا ہے لیکن ہشیم بن بشیر الواسطی مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے، ہمارے علم کے مطابق اس روایت کی کسی سند میں سماع کی تصریح نہیں، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے بلوغ المرام (237 بتحقیقی)

اگر کوئی (مثلاً شیخ عبدالرحمٰن عزیز یا محمد اشتیاق اصغر) کہے کہ آپ نے تسہیل الوصول إلیٰ تخریج صلوٰۃ الرسول (طبع اول ص 267، طبع 2005 ء ص 214) میں اس روایت کو صحیح لکھا ہے اور نمازِنبوی (ص 180) میں اس سے استدلال کیاہے۔ (دیکھئے عبدالرحمٰن عزیز کی کتاب صحیح نماز نبوی ص 181)

تو عرض ہے کہ راقم الحروف نے باربار اعلان کیا ہے کہ میری صرف وہی کتاب معتبر ہے، جسے مکتبۃ الحدیث حضرو یا مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد / لاہور سے شائع کیا گیا ہے یا اُس کتاب کے آخر میں میرے دستخط ہیں۔ مثلاً دیکھئے مقدمۃ القول المتین فی الجہر بالتامین (ص 12، دوسرا نسخہ ص 19، نوشتہ 22/ دسمبر 2003ء) اور ماہنامہ الحدیث حضرو: 27 ص 60 (نوشتہ 15/ جون 2006ء)

اس واضح اعلان کے بعد بعض الناس کا راقم الحروف کے خلاف نماز نبوی نامی کتاب یا صلوٰۃ الرسول کی تخریج کے حوالے پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

ہر صاحبِ انصاف کے نزدیک معقول عذر مقبول ہوتا ہے۔

بعض لوگوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرے دستخطوں کے بغیر بھی ’’نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں۔ تصحیح و تخریج سے مزین جدید ایڈیشن‘‘ مطبوعہ دارالسلام میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔ (دیکھئے ص 224 تا 226)

امام ہشیم کی روایتِ مذکورہ کی تحقیق کے بعد عرض ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں آیا ہے:

’’کان النبي ﷺ …… و إذا سجد وجّہ أصابعہ قبل القبلۃ‘‘

نبی ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف کرتے۔

(نصب الرایہ 1/ 374، السنن الکبریٰ للبیہقی 2/ 113، اصل صفۃ الصلوٰۃ علی النبی ﷺ للالبانی 2/ 639 وقال: وسندہ صحیح کما فی الدرایہ [79])

اس روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ دو وجہ سے ضعیف ہے:

اول— ابو اسحاق السبیعی مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔ (دیکھئے طبقات المدلسین:3/91)

دوم— زکریا بن ابی زائدہ مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔ (دیکھئے الفتح المبین ص 38)

اس کا ایک ضعیف شاہد کتاب الاوسط لابن المنذر (3/ 169، فیہ حارثہ بن محمد وھو ضعیف) اور مصنف ابن ابی شیبہ (1/ 264 ح 2712) وغیرہما میں بھی موجود ہے۔

جو لوگ حسن لغیرہ کو حجت بنائے بیٹھے ہیں، اُن کی شرط پر یہ تین ضعیف روایتیں ایک دوسرے سے مل کر حسن لغیرہ بن جاتی ہیں۔!

اسی ضعیف روایت پر اگر عمل کیا جائے، ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو اگر قبلہ رُخ کیا جائے تو تقریباً ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں اور علیحدہ کرنے کی صورت میں اُن کا رخ قبلے سے پھر سکتا ہے۔

امام محمد بن سیرین (ثقہ تابعی) نے فرمایا:

لوگ یہ پسند کرتے تھے کہ سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ملائی جائیں۔

(مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 260 ح 2671 وسندہ صحیح)

امام حفص بن عاصم (ثقہ تابعی) نے عبدالرحمٰن بن القاسم (ثقہ تبع تابعی) سے فرمایا:

اے بھتیجے! سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ملا کر انھیں قبلہ رُخ کر دے کیونکہ چہرے کے ساتھ ہاتھ (بھی)سجدہ کرتے ہیں۔

(مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 260 ح 2673 وسندہ صحیح)

امام سفیان ثوری سجدے میں انگلیاں ملاتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 260 ح 2674 وسندہ صحیح)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی ہتھیلیوں کو سجدے میں قبلہ رُخ کرنے کے قائل تھے۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 264 ح 2713 وسندہ صحیح، 2718، 2719 وسندہ صحیح)

اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ سجدے میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملا کر قبلہ رخ رکھنا صحیح و راجح ہے۔ واللہ اعلم

………… اصل مضمون …………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 3 صفحہ 89 تا 91) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ