سلف صالحین اور بعض مسائل میں اختلاف

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


الحمد للّٰہ ربّ العالمین والصّلٰوۃ والسّلام علٰی رسولہ الأمین، أما بعد:

بعض لوگ اپنے خُفیہ مقاصد کے لئے بعض اہلِ حدیث (اہلِ سنت) علماء کے درمیان چند مسائل میں اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پُلَندوں کی شکل میں اس انداز سے پیش کرتے ہیں، گویا کہ کفر و اسلام کا مسئلہ ہو، حالانکہ بعض اجتہادی مسائل میں اختلاف ہو جانا حرام نہیں بلکہ جائز ہے۔

اہلِ سنت کا اتفاق ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اہلِ حق، طائفۂ منصورہ اور جَنتی جماعت ہے اور اسی طرح اُن کے متبعین باحسان تابعینِ عظام رحمہم اللہ اجمعین بھی اہلِ حق اور طائفہ منصورہ ہیں۔

اہلِ حق اور طائفۂ منصورہ ہونے کے باوجود صحابہ اور تابعین کا کئی مسائل میں اختلاف تھا، جس کی تفصیل شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم الدہلوی (متوفی 1176ھ) کی کتاب: ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (ج1ص 140۔144، باب اسباب اختلاف الصحابۃ والتابعین فی الفروع)

امام ابو عیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ نے نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے بارے میں فرمایا:

’’و قد اختلف أصحاب النبي ﷺ فی الصلٰوۃ قبل المغرب: فلم یر بعضھم الصلاۃ قبل المغرب، و قد روي عن غیر واحد من أصحاب النبي ﷺ أنھم کانوا یصلّون قبل صلوۃ المغرب رکعتین بین الأذان و الإقامۃ‘‘

مغرب سے پہلے نماز کے بارے میں نبی ﷺ کے صحابہ کے درمیان اختلاف ہوا: پس اُن میں سے بعض مغرب سے پہلے نماز کے قائل نہیں تھے اور نبی ﷺ کے کئی صحابہ سے مروی ہے کہ وہ مغرب کی نماز سے پہلے اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے۔

(سنن الترمذی ح 185، باب ماجاء فی الصلوٰۃ قبل المغرب)

امام ابوبکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ (متوفی 318ھ) نے فرمایا:

’’اختلف أصحاب رسول اللہ ﷺ و من بعدھم فی الوضوء ممامست النار……‘‘ إلخ

رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اور اُن کے بعد آنے والوں میں، جسے آگ چُھو لے اس (کے کھانے) سے وضو کے بارے میں اختلاف ہے۔

(الاوسط فی السنن والاجماع والاختلاف ج 1 ص 213، الوضوء مما مست النار)

مَنی کے بارے میں ابو جعفر الطحاوی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’و قد اختلف أصحاب النبي ﷺ في ذلک……‘‘

نبی ﷺ کے صحابہ کا اس کے بارے میں اختلاف ہے……

(شرح معانی الآثار ج 1 ص 52 باب حکم المنی ھل ھو طاھر أم نجس؟)

امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ (متوفی 264ھ) نے فرمایا:

’’اختلف أصحاب النبي ﷺ في جراحات الرجال والنساء ……‘‘

مَردوں اور عورتوں کے زخموں کے بارے میں نبی ﷺ کے صحابہ نے اختلاف کیا ……

(شرف اصحاب الحدیث للخطیب: 153، وسندہ صحیح، کتاب الضعفاء لابی زرعہ الرازی ج 2 ص 773)

ان چار گواہیوں سے معلوم ہوا کہ صحا بۂ کرام رضی اللہ عنہم کا آپس میں بعض اجتہادی مسائل میں اختلاف ہوا تھا، لہٰذا اہلِ حق کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف ہو جانا قابلِ تردید و مذمت نہیں بلکہ جائز ہے اور ہر ایک کو اپنی نیت کے مطابق ثواب ملے گا۔ ان شاء اللہ

یاد رہے کہ اختلافِ تناقض و تعارض کی صورت میں حق صرف ایک طرف ہوتا ہے اور اہلِ حق کا دوسرا فریق اس مسئلے میں مجتہد مخطئ ہونے کی وجہ سے ماجور ہوتا ہے یعنی اُسے ایک اجر ملتا ہے۔ اب قطع نظر اس سے کہ راجح کیا ہے اور مرجوح کیا ہے؟ صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام کے درمیان اختلاف میں سے بعض اختلافات کے بیس (20)سے زائد حوالے پیشِ خدمت ہیں:

نمبر 1:

جس شخص پر جنابت کی وجہ سے غسل فرض ہو اور اسے پانی نہ ملے تو کیا کرے؟

اس کے بارے میں سیدنا عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’لا یصلّی حتی یجد الماء‘‘

وہ نماز نہیں پڑھے گا حتیٰ کہ پانی پالے۔

(صحیح بخاری ج 1 ص 50 ح 346)

جبکہ سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے میں اُن کے مقابلے میں قرآن مجید کی آیت سے استدلال کیا تو ’’فما دری عبداللہ ما یقول‘‘ عبداللہ (رضی اللہ عنہ) کو معلوم نہ ہوا کہ کیا کہیں؟ (حوالہ مذکورہ ح 346)

نمبر 2:

اگر عورت حائضہ یا جُنبیہ نہ ہو تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اُس کے جُوٹھے پانی سے (وضو کرنے میں) کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 33 ح 347 وسندہ صحیح)

جبکہ سیدنا حکم (بن عمرو) الغفاری رضی اللہ عنہ نے عورت کے استعمال سے باقی ماندہ پانی سے منع فرمایا۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 34 ح 355 وسندہ صحیح)

نمبر 3:

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’لا تدخل الحمام ……‘‘

حمام میں د اخل نہ ہو……

(ابن ابی شیبہ 1/ 109 ح 1165، وسندہ صحیح)

جبکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جُحفہ کے حمام میں داخل ہوئے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 109 ح 1169، وسندہ صحیح)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

حمام بہترین گھر ہے، میل کُچیل دُور کر دیتا ہے اور (جہنم کی) آگ یاد دلاتا ہے۔

(ابن ابی شیبہ 1/ 109ح 1170، وسندہ صحیح)

نمبر 4:

سمندر کے پانی کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’التیمم أحبّ إليّ من الوضوء من ماء البحر‘‘

میرے نزدیک سمندر کے پانی سے وضو کرنے سے تیمم (کرنا) بہتر ہے۔

(ابن ابی شیبہ 1/ 131 ح 1393، وسندہ صحیح)

جبکہ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے سمندر کے پانی سے وضو کے بارے میں فرمایا:

’’ھو الطھور ماؤہ والحلال میتتہ‘‘

اس کا پانی پاک ہے اور مُردار (مچھلی) حلال ہے۔

(ابن ابی شیبہ 1/ 130 ح 1379، وسندہ صحیح)

نمبر 5:

عمیر بن سعد (ثقہ تابعی) سے روایت ہے کہ میں اُس مجلس میں بیٹھا ہوا تھا جس میں عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہ) موجود تھے، اُن سے نماز میں ذَکر چُھونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: یہ تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے…… الخ (ابن ابی شیبہ 2/ 202 ح 1754، نسخہ محمد عوامہ وسندہ صحیح)

جبکہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب اپنی شرمگاہ (ذَکر) کو (ہاتھ سے) چُھوتے تو دوبارہ وضو کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ نسخہ محمد عبدالسلام شاہین 1/ 194 ح 1733، وسندہ صحیح)

یعنی ایک صحابی مسِ ذکر سے وضو ٹوٹنے کے قائل نہیں تھے اور دوسرے وضو ٹوٹنے کے قائل تھے۔

نمبر 6:

چمڑے کے موزوں پر مسح کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

’’لأن أحزّھما بالسکاکین أحبّ إليّ من أن أمسح علیھما‘‘

اگر میں انھیں چُھریوں سے کاٹ ڈالوں تو یہ میرے لئے بہتر ہے اس سے کہ میں ان پر مسح کروں۔

(ابن ابی شیبہ 1/ 185 ح 1944، وسندہ صحیح)

معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا موزوں پر مسح کی قائل نہیں تھیں۔

دوسری طرف سیدنا سعد (بن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’امسح علیھما‘‘

ان (موزوں) پر مسح کرو۔

(ابن ابی شیبہ 1/ 180 ح 1886، وسندہ صحیح)

عاصم (ثقہ تابعی) نے فرمایا:

’’رأیت أنسًا یمسح علی الخفین والعمامۃ‘‘

میں نے انس (رضی اللہ عنہ) کو موزوں اور پگڑی پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔

(ابن ابی شیبہ 1/ 22 ح 224 وسندہ صحیح)

نمبر 7:

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نمازِ جمعہ کی دو اذانیں ہوتی تھیں: ایک خطبے کے وقت اذان اور دوسری: نماز کے وقت اقامت، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے خطبے والی اذان سے پہلے ایک اذان کو جاری کر دیا۔ دیکھئے صحیح بخاری (ج 1 ص 124 ح 912، 913)

اس اذانِ عثمانی کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’الأذان الأول یوم الجمعۃ بدعۃ‘‘

جمعہ کے دن پہلی اذان بدعت ہے۔

(ابن ابی شیبہ 2/ 140 ح 5436)

دوسری طرف یہ روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’کل بدعۃ ضلالۃ و إن رآھا الناس حسنًا‘‘

ہر بدعت گمراہی ہے، اگرچہ لوگ اسے حسن (اچھی) سمجھتے ہوں۔

(السنہ للمروزی: 82 وسندہ صحیح)

یاد رہے کہ ہمارے نزدیک اذانِ عثمانی پر بدعت کا فتویٰ صحیح نہیں ہے۔

نمبر 8:

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ متعۃ الحج (تمتع) سے منع کرتے تھے۔

جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم ہوا تو انھوں نے حج اور عمرے (تمتع) کی لبیک کہی اور فرمایا:

’’ما کنت لأدع سنۃ النبي ﷺ لقول أحد‘‘

میں نبی ﷺ کی سنت کسی کے کہنے پر چھوڑ نہیں سکتا۔

(صحیح بخاری ج 1 ص 212 ح 1563)

نمبر 9:

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے (صبح کی نماز) اندھیرے میں پڑھائی تو (سیدنا) ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’أسفروا بھذہ الصلٰوۃ فإنہ أفقہ لکم‘‘

یہ نماز روشنی میں پڑھو، کیونکہ یہ تمھارے لئے زیادہ تفقہ والی (مناسب) ہے۔

(ابن ابی شیبہ 1/ 321 ح 3247 وسندہ صحیح)

جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فجر کی نماز پڑھاتے تو آدمی اپنے بیٹے کو تین ہاتھ دور سے پہچان نہیں سکتا تھا۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 320 ح 3236 وسندہ صحیح)

یعنی آپ رضی اللہ عنہ سخت اندھیرے میں صبح کی نماز پڑھاتے تھے اور یہی راجح ہے۔

نمبر 10:

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سورۂ ص میں سجدۂ تلاوت نہیں کرتے تھے اور فرماتے: یہ نبی کی توبہ ہے۔ (ابن ابی شیبہ 2/ 10 ح 4269 وسندہ حسن)

جبکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سورۂ ص میں سجدہ کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 2/ 9 ح 4259 وسندہ صحیح)

نمبر 11:

سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 2/ 353 ح 7350 وسندہ صحیح)

جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے والے کو مارتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 2/ 350 ح 7335 وسندہ صحیح)

اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں، بلکہ بعض صحابۂ کرام سے ایک ہی مسئلے میں دو طرح کے فتوے بھی ثابت ہیں۔ مثلاً:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ، ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) کے پیچھے نماز پڑھی ہے، وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً نہیں پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 411 ح 4144 وسندہ صحیح)

جبکہ سیدنا عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر (رضی اللہ عنہ) نے (نماز میں) بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً پڑھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 412 ح 4157 وسندہ صحیح، شرح معانی الآثار للطحاوی 1/ 137، السنن الکبریٰ للبیہقی 2/ 48)

جو شخص (اپنی بیوی سے) جماع کرے اور انزال نہ ہو تو اس کے بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ غسل نہیں کرے گا۔ الخ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 90 ح 962 وسندہ صحیح)

جبکہ دوسری روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب شرمگاہ سے شرمگاہ مل جائے تو غسل واجب (فرض) ہے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 86 ح 933 وسندہ حسن، التاریخ الکبیر للبخاری 3/ 214 وسندہ حسن)

………………………………

اب تابعین کے بعض آثارِ اختلاف پیشِ خدمت ہیں:

نمبر 12:

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی کا خلال کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 12 ح 100، وسندہ صحیح)

جبکہ ابراہیم (نخعی رحمہ اللہ) نے وضو کیا اور اپنی داڑھی کا خلال نہیں کیا۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 14 ح 126، وسندہ صحیح)

نمبر 13:

مشہور ثقہ تابعی عکرمہ رحمہ اللہ (وضو میں) اپنے پاؤں پر مسح کرتے تھے اور اسی کے قائل تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 18 ح 178، وسندہ صحیح)

جبکہ ابو مجلز لاحق بن حمید رحمہ اللہ اپنے پاؤں دھوتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 20 ح 197، وسندہ صحیح)

نمبر 14:

حکیم بن جابر (بن طارق بن عوف الاحمسی الکوفی) رحمہ اللہ اپنی پگڑی پر مسح کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 22 ح 227 وسندہ حسن)

جبکہ عروہ (بن الزبیر) رحمہ اللہ پگڑی اُتار کر سر پر پانی سے مسح کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 23 ح 236 وسندہ صحیح، موطا امام مالک 1/ 35 ح 68 وسندہ صحیح)

قاسم بن محمد بن ابی بکر پگڑی پر مسح نہیں کرتے تھے۔ الخ (ابن ابی شیبہ 1/ 24 ح 238 وسندہ صحیح)

نمبر 15:

ابن عون (ثقہ) سے روایت ہے کہ میں نے محمد (بن سیرین رحمہ اللہ) کو دیکھا، وہ کھڑے ہوکر پیشاب کر رہے تھے اور وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 123 ح 1317، وسندہ صحیح)

جبکہ ابن بریدہ رحمہ اللہ نے فرمایا: کھڑے ہو کر پیشاب کرنا (من الجفاء) بد اخلاقی میں سے ہے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 124 ح 1327، وسندہ صحیح)

نمبر 16:

ابن شہاب الزہری (ثقہ تابعی) وضو کے بعد تولیے سے اپنا چہرہ پونچھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 149 ح 1590، وسندہ صحیح)

اسود بن یزید رحمہ اللہ (بھی) تولیے سے پونچھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 149 ح 1588، وسندہ صحیح)

جبکہ ابراہیم نخعی اور سعید بن جبیر رحمہما اللہ وضو کے بعد تولیے کو مکروہ سمجھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 150 ح 1595، وسندہ صحیح)

اور عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ بھی اسے ناپسند کرتے تھے اور فرماتے: تم نے تولیے ایجاد کرلئے ہیں۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 150 ح 1596، وسندہ صحیح)

نمبر 17:

ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ تیمم دو ضربیں ہے: ایک چہرے کے لئے اور دوسری ذراعین (ہاتھ کی انگلیوں سے کہنیوں تک) کے لئے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 159 ح 1684، وسندہ صحیح)

جبکہ مکحول (تابعی رحمہ اللہ) نے تیمم کیا تو اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کا (مٹی سے) مسح کیا۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 159 ح 1679، وسندہ صحیح)

یعنی انھوں نے کہنیوں تک تیمم نہیں کیا۔

نمبر 18:

ابراہیم نخعی نے کہا کہ بغیر وضو کے اذان کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ الخ (ابن ابی شیبہ 1/ 211 ح 2188 وسندہ صحیح)

جبکہ عطا ء بن ابی رباح بغیر وضو کے اذان کو مکروہ سمجھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 212 ح 2196 وسندہ حسن)

نمبر 19:

عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ اذان میں باتیں کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 212 ح 2203 وسندہ صحیح)

جبکہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ اذان میں باتیں کرنا مکروہ سمجھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 212 ح 2205 وسندہ صحیح)

نمبر 20:

عثمان بن ابی ھندالعبسی الکوفی (ثقہ) نے کہا: میں نے ابو عبیدہ (بن عبداللہ بن مسعود رحمہ اللہ) کو دیکھا، ا نھوں نے جب رکوع کیا توتطبیق کی یعنی اپنی رانوں کے درمیان اپنے دونوں ہاتھ رکھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 247 ح 2543 وسندہ صحیح)

جبکہ ابراہیم نخعی اپنے گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 245 ح 2536 وسندہ صحیح)

سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے رکوع میں اپنے گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھے۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 245 ح 37 25 وسندہ حسن)

اور یہی راجح اور آخری عمل والی احادیث سے ثابت ہے۔

نمبر 21:

مکحول رحمہ اللہ نے فرمایا: آدمی کی نماز کو عورت، گدھا اور کتا (اگر آگے سے گزر جائے تو) توڑ دیتے ہیں۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 281 ح 2901 وسندہ صحیح)

جبکہ عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے فرمایا: کفر کے سوا نماز کو کوئی چیز بھی نہیں توڑتی۔ (ابن ابی شیبہ 1/ 280 ح 2891 وسندہ صحیح)

اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں، جن سے صاف ثابت ہے کہ اہلِ حق میں بعض مسائل میں اختلاف ہوا ہے اور اختلاف ہو سکتا ہے، لہٰذا اہلِ بدعت کا اہلِ حق (اہلِ حدیث) کے بعض اختلافات پیش کر کے پروپیگنڈا کرنا باطل اور مردود ہے۔

………………………………

امام ابو حنیفہ اور حنفی علماء کے درمیان بھی کئی مسائل پر بڑا اختلاف ہے، استاد اور دونوں شاگردوں (قاضی ابو یوسف اور محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی) کے درمیان سخت اختلاف تھا، جس کی دس مثالیں حنفیہ کی معتبر کتبِ فقہ سے پیشِ خدمت ہیں:

1) ابو حنیفہ نے کہا: امام کی تکبیر کے ساتھ مقتدی ملاتے ہوئے تکبیر کہے، جبکہ قاضی ابویوسف اور ابن فرقد نے کہا: اس (امام) کے بعد تکبیر کہے۔ (مختلف الروایہ لابی اللیث السمرقندی ج1ص 71 حوالہ: 1)

2) ابو حنیفہ نے کہا: جب امام رکوع سے سر اُٹھائے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور ربنا لک الحمد نہ کہے۔ جبکہ ابو یوسف اور ابن فرقد نے کہا: وہ دونوں (کلمات) اکٹھے کہے۔ (مختلف الروایہ 1/ 74 حوالہ: 2، دیکھئے الجامع الصغیر لابن فرقد ص87۔88)

3) ابو حنیفہ نے کہا: اگر نمازی بغیر عذر کے پیشانی کے بغیر (صرف) ناک زمین پر رکھے تو جائز ہے اور اُس نے غلط کام کیا۔ جبکہ ابو یوسف اور ابن فرقد نے کہا: جائز نہیں ہے۔ (مختلف الروایہ 1/ 78 حوالہ: 3، دیکھئے ہدایہ اولین ص 108)

4) ابو حنیفہ نے کہا: اگر قرآن فارسی میں پڑھے، خطبۂ جمعہ فارسی میں دے اور نماز میں تشہد فارسی میں پڑھے تو جائز ہے۔ ابو یوسف اور ابن فرقد نے کہا: اگر عربی اچھی طرح آتی ہے تو جائز نہیں ہے۔ الخ (مختلف الروایہ 1/ 80۔81 حوالہ: 4، دیکھئے الجامع الصغیر ص94، ہدایہ اولین ص101)

یاد رہے کہ اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ سے باسند صحیح رجوع ثابت نہیں ہے۔

5) ابو حنیفہ نے کہا: جرابیں اگرچہ موٹی ہوں اور غیر منعل ہوں تو اُن پر مسح جائز نہیں ہے۔

ابو یوسف اور ابن فرقد نے کہا: اگر موٹی ہوں تو اُن پر مسح جائز ہے۔ (مختلف الروایہ 1/ 90 حوالہ: 9)

ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ (امام) ابو حنیفہ نے آخر میں اپنی اس بات اور فتوے سے رجوع کرلیا تھا اور اسی پر فتویٰ ہے۔ (اولین ج 1 ص 61، وعنہ أنہ رجع إلیٰ قولہما و علیہ الفتویٰ)

6) ابو حنیفہ نے کہا: اگر وضو کرکے عید کی نماز شروع کرے پھر وضو ٹوٹ جائے تو تیمم کر کے نماز پر بنا کرے یعنی سابقہ نماز کے ساتھ ملا کر نماز پڑھے۔

ابو یوسف اور ابن فرقد نے کہا: نمازِ عید میں تیمم کے ساتھ بنا کرناجائز نہیں ہے۔ (مختلف الروایہ 1/ 96۔97 حوالہ: 11)

7) ابو حنیفہ نے کہا: شہر میں مقیم جُنبی کو اگر گرم پانی نہ ملے اور اسے اپنے آپ پر ہلاک ہونے کا ڈر ہو تو اُس کے لئے تیمم کرنا جائز ہے۔ ابو یوسف اور ابن فرقد نے کہا: جائز نہیں ہے۔ (مختلف الروایہ 1/ 98 حوالہ: 12)

8) ابو حنیفہ نے کہا کہ عصر کا وقت دو مثل پر داخل ہوتا ہے جبکہ ابو یوسف اور ابن فرقد نے کہا کہ ایک مثل پر داخل ہوتا ہے۔ (مختلف الروایہ 1/ 100 حوالہ: 14، دیکھئے ہدایہ اولین ص81)

9) ابو حنیفہ نے کہا: اذانِ خطبہ اور اقامت کے درمیان کلام کرنا مکروہ ہے۔ ابو یوسف اور ابن فرقد نے کہا: مکروہ نہیں ہے۔ (مختلف الروایہ 1/ 103 حوالہ:16)

10) ابو حنیفہ نے کہا: اگر امام اور اکیلا (نمازی)مصحف سے (یعنی قرآن دیکھ کر) قراءت کرے تو اُس کی نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ ابو یوسف اور ابن فرقد نے کہا: فاسد نہیں ہوتی۔ (مختلف الروایہ 1/ 117 حوالہ: 23، دیکھئے الجامع الصغیر ص97)

………………………………

اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں جن کی تفصیل درج ذیل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے:

1: ابو اللیث السمرقندی کی کتاب: مختلف الروایہ (ترتیب العلاء السمرقندی) 4 جلد یں

2: مختصر اختلاف العلماء تصنیف الطحاوی (اختصار الجصاص) 5 جلدیں

3: الافصاح عن معانی الصحاح لابن ہبیرہ 2 جلدیں

4: اختلاف الفقہاء للمروزی 1 جلد

5: مولانا عصمت اللہ ثاقب ملتانی کی کتاب: الاختلاف بین ائمۃ الاحناف 1 جلد

6: مولانا ارشاد الحق اثری کی کتاب: اسباب اختلاف الفقہاء 1 جلد

7:ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی کتاب: اسباب اختلاف الفقہاء 1 جلد

………………………………

حنفیہ اور شافعیہ کا بھی آپس میں بڑا اختلاف ہے مثلاً:

1: شافعیہ نماز میں رفع یدین قبل الرکوع و بعدہ کے قائل و فاعل ہیں، جبکہ حنفیہ مخالف ہیں۔

2: شافعیہ فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل ہیں، جبکہ حنفیہ مخالف ہیں۔

3: شافعیہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے قائل و فاعل ہیں، جبکہ حنفیہ مخالف ہیں۔

4: شافعیہ جہری نمازوں میں آمین بالجہر کے قائل و فاعل ہیں جبکہ حنفیہ کو اس سے چڑ ہے۔

5: شافعیہ کے نزدیک وتر سنت ہے، جبکہ حنفیہ کے نزدیک وتر واجب ہے۔

اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔

دیوبندیہ اور بریلویہ دونوں فرقوں میں باہم بہت زیادہ اختلافات ہیں، بلکہ بعض تو ایک دوسرے پر کفر، شرک اور بدعت کے فتوے بھی لگاتے ہیں۔

دیوبندیہ کے حیاتی اور مماتی فرقوں میں بھی کئی اختلافات ہیں، حتیٰ کہ بعض تو ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے قائل و فاعل ہیں۔

دیوبندیوں کے باہمی اختلافات اور تناقضات کی داستان بڑی طویل ہے۔ مثلاً دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (عدد 62 ص 15 تا 32، دیوبندی بنام دیوبندی)

محولہ مقام پر تیس سے زیادہ دیوبندی اختلافات کے حوالے پیش کر کے آلِ دیوبند کو اُن کا باطنی چہرہ دکھایا گیا ہے کہ ذرا اپنے گھر کی بھی خبر لیں۔

………………………………

یہی حال آلِ بریلی (فرقہ بریلویہ) کا ہے۔ مثلاً:

1: ایمانِ ابی طالب کے بعض قائل ہیں اور بعض ایمانِ ابی طالب کے قائل نہیں ہیں۔

2: بعض طاہر القادری کو اچھا سمجھتے ہیں اور بعض اس کے مخالف ہیں بلکہ اُسے ’’خطرے کی گھنٹی‘‘ سمجھتے ہیں۔

3: سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بعض بریلویہ سخت مخالف ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ وہ تو ایک صحابی معلوم ہوتے ہیں۔ (دیکھئے مقابیس المجالس ص 796)

4: بعض سبز پگڑی باندھتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ ’’اب ایک گمراہ فرقہ یعنی دیندار جماعت نے بھی سبز عمامہ باندھنا شروع کر دیا ہے اور اس کو اپنی علامت بنا لیا ہے‘‘ (دیکھئے شرح صحیح مسلم از غلام رسول سعیدی ج 6 ص 382)

کیا ان لوگوں نے اپنی چارپایوں کے نیچے بھی کبھی لاٹھیاں پھیری ہیں یا بس اہلِ سنت (اہلِ حدیث) کے بعض اختلافات کو ہی اچھالنے میں مصروف ہیں؟!

………………………………

رَے اور اصبہان کے شہروں میں حنفیوں اور شافعیوں کی باہمی لڑائیاں اور قتلِ عام کس کھاتے میں جائے گا؟ تفصیل کے لئے دیکھئے یاقوت الحموی کی کتاب: معجم البلدان (ج 3 ص 117، ج 1 ص 209)

………………………………

آخر میں اہلِ حدیث (اہلِ سنت) بھائیوں کی خدمت میں عرض ہے کہ علمائے حق کے بعض اجتہادی مسائل میں بعض اختلافات پر تنگ دل نہ ہوں اور نہ ایک دوسرے کے خلاف فتوے لگانا شروع کر دیں بلکہ صبر کریں اور اسی طرح برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کریں، جس طرح صحابہ و تابعین اور سلف صالحین نے اپنے باہمی اختلافات پرکیا تھا۔

درگزر کریں، راجح کو ترجیح دیں اور وسعتِ نظری سے کام لیں۔

علمائے کرام کا احترام کریں اور ادب کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

اہلِ حدیث کے تمام مخالفین علمی میدان میں ہمیشہ شکست خوردہ اور مغلوب رہیں گے۔ ان شاء اللہ

سلف صالحین کے درمیان اجتہادی مسائل میں اختلافات کی اصل وجہ یہ تھی کہ بعض مسائل میں نصِ صریح واضح نہ ہونے کی وجہ سے انھیں اجتہاد کرنا پڑا، لہٰذا یہ اختلاف رونما ہوا۔

بعض تک صحیح حدیث نہ پہنچی تو انھوں نے اجتہاد سے کام لیا، لیکن جب اُن تک صحیح حدیث پہنچ گئی تو انھوں نے آلِ تقلید کی طرح ضد اور ہٹ دھرمی سے کام نہیں لیا بلکہ فوراً رجوع کر لیا۔

مثلاً: سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی وراثت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: بیٹی کے لئے آدھا ہے اور بہن کے لئے آدھا ہے، ابن مسعود کے پاس جا کر پوچھ لو! وہ میری تائید کریں گے۔

پھر ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا گیا اور انھیں ابو موسیٰ (رضی اللہ عنہ) کا قول بتایا گیا تو انھوں نے فرمایا: میں اس کے بارے میں وہ فیصلہ کروں گا جو نبی ﷺ نے کیا تھا: بیٹی کے لئے آدھا ہے، پوتی کے لئے چھٹا حصہ ہے اور اس طرح دو تہائی پوری ہو گئی، جو باقی بچا وہ بہن کا ہے۔

پھر ابو موسیٰ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: جب تک یہ عالم تمھارے درمیان موجود ہیں مجھ سے مسئلے نہ پوچھو۔ (صحیح بخاری: 6736 ملخصاً)

معلوم ہوا کہ سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نے حدیث معلوم ہونے کے بعد فوراً اپنے فتوے سے رجوع کر لیا تھا اور یہی اہلِ ایمان کی عظیم نشانی ہے۔ والحمدللہ

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 4 صفحہ 328 تا 339) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ