سلطان نور الدین زنگی رحمہ اللہ کا واقعہ؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال: اگر راجح قول کے مطابق نبی کریم ﷺ کا دیدار قیامت کو ہوگا تو پھر سلطان نور الدین زنگی کے واقعہ کی حقیقت آشکار کریں یا یہ واقعہ صحیح ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس دنیا میں بھی آپ ﷺ کا دیدار ممکن ہے۔ (ایک سائل)

الجواب:

سلطان نور الدین محمود بن ابی سعید زنگی بن آق سُنقر الترکی السلجوقی رحمہ اللہ 511ھ میں پیدا ہوئے اور 569 ھ میں اپنے بستر پر فوت ہوئے۔ دیکھئے تاریخ دمشق لابن عساکر (60/ 118) اور تاریخ ابن الجوزی: المنتظم فی تاریخ الملوک والامم (18/ 208)

آپ حنفی فقہاء میں سے متبع کتاب و سنت تھے۔ حافظ ابن کثیر الدمشقی رحمہ اللہ نے ایک عظیم الشان واقعہ لکھا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نور الدین زنگی سیدنا رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو ترجیح دینے والے متبعِ سنت تھے۔ دیکھئے البدایہ والنہایہ (ج14ص 246، 247 وفیات 569ھ)

آپ عظیم مجاہد اور عادل سلطان تھے۔ رحمہ اللہ

آپ اپنے بستر پر فوت ہوئے لیکن ہر وقت شہادت کی تمنا اور جستجو میں رہتے تھے، اسی وجہ سے لوگوں نے آپ کو نور الدین الشہید کا لقب دیا۔ آپ نے مدینہ منورہ کی فصیلوں (دیواروں) کی تکمیل کا حکم دیا تھا۔ دیکھئے سیر اعلام النبلاء للذہبی (20/ 532)

آپ کے مفصل حالات کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں: المنتظم (18/ 209۔210) تاریخ دمشق لابن عساکر (60/ 118۔123) الکامل فی التاریخ لابن الاثیر (9/ 124۔126) تاریخ الاسلام للذہبی (39/ 370۔387) سیر اعلام النبلاء (20/ 531۔539) اور البدایہ والنہایہ(14/ 239۔254) وغیرہ

ابن اثیر نے لکھا ہے: ’’وکان عارفًا بالفقہ علٰی مذہب أبي حنیفۃ لیس عندہ فیہ تعصب‘‘ اور وہ ابو حنیفہ کے مذہب پر فقہ کے عالم تھے، اس میں کسی قسم کا تعصب نہیں کرتے تھے۔ (الکامل 9/ 125)

اس قسم کے حنفی علماء مقلد اور تقلید پرست نہیں ہوتے بلکہ مکتبِ فکر اور تفقہ کی نسبتوں کے باوجود متبع کتاب و سنت رہتے ہیں۔ ان کے برعکس دیوبندی اور بریلوی حضرات تقلید کی دلدل اور تعصب کے خولوں میں سر تا پا غرق ہیں۔ ھداھم اللہ تعالٰی

844 ہجری میں پیدا اور 911ھ میں فوت ہونے والے نور الدین علی بن عبداللہ بن احمد السمہودی نے علامہ جمال الدین الاسنوی (عبدالرحیم بن الحسن بن علی الشافعی / پیدائش 704ھ وفات 772ھ) سے نقل کیا ہے کہ دو نصرانیوں (عیسائیوں) نے حجرۂ مبارکہ کے پاس کسی گھر میں کھدائی کر رکھی تھی تاکہ نبی کریم ﷺ کا جسم مبارک قبر سے نکال لیں۔ نور الدین الشہید نے خواب میں دیکھا کہ نبی ﷺ دو آدمیوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ بعد میں دونوں نصرانی پکڑے گئے اور انھیں قتل کر دیا گیا۔ نور الدین رحمہ اللہ نے حجرے کے چاروں طرف سیسے کی عظیم دیوار بنادی۔ ملخصاً دیکھئے وفاء الوفاء بأخبار المصطفیٰ ﷺ للسمہودی (ج2ص 185۔188)

یہ قصہ اس وجہ سے ضعیف اور غیر ثابت ہے کہ جمال الدین الاسنوی نے نور الدین الشہید کے معاصرین میں سے کسی ثقہ و صدوق گواہ تک کوئی متصل سند بیان نہیں کی اور بے سند و منقطع روایت مردود ہوتی ہے۔

نور الدین زنگی رحمہ اللہ کے حالات ابن جوزی، ابن عساکر اور دیگر علماء نے لکھے ہیں مگر کسی نے اس واقعے کا تذکرہ نہیں کیا لہٰذا وہ کون سا ذریعہ تھا جس سے اسنوی مذکور (جو زنگی رحمہ اللہ کی وفات کے 135 سال بعد پیدا ہوئے) کو اس واقعے کا پتا چل گیا؟

سمہودی نے المجد اور مطری کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ دونوں بھی زنگی رحمہ اللہ کی وفات کے بہت بعد پیدا ہوئے تھے۔

خلاصۃ التحقیق: خواب والا یہ قصہ باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔

یادر ہے کہ اس فانی دنیا میں نبی کریم ﷺ کا دیدار ہونا کسی صحیح حدیث یا آثارِ سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔ اگر اس طرح دیدار ہوتا تو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کو ضرور ہوتا، مگر کسی سے بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں آیا۔ رہے اہلِ تصوف اور اہلِ خرافات کے دعوے تو علمی میدان میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

فائدہ:

سبط ابن الجوزی (یوسف بن قزغلی الواعظ) نے اس واقعے کے علاوہ ایک دوسرے خواب کا ذکر کیا ہے جس میں (بقول سبط ابن الجوزی) نبی ﷺ نے فرنگیوں (کافر انگریزوں) کے حملے کی اطلاع دی تھی۔ دیکھئے مرآۃ الزمان (8/ 199۔200) اور سیر اعلام النبلاء (20/ 538)

اس واقعے کا راوی سبط ابن الجوزی بذاتِ خود سخت مجروح اور بدعتی تھا۔

حافظ ذہبی نے کہا: میں اُسے نقلِ روایت میں ثقہ نہیں سمجھتا، وہ رافضی تھا، اس نے مرآۃ الزمان نامی کتاب لکھی جس میں وہ منکر حکایتیں لاتا ہے۔

شیخ محی الدین السوسی نے کہا: جب میرے دادا کو سبط ابن الجوزی کی موت کی اطلاع ملی تو انھوں نے فرمایا: اللہ اُس پر رحم نہ کرے، وہ رافضی تھا۔ (دیکھئے میزان الاعتدال 4/ 471، دوسرا نسخہ 7/ 304)

ابن قزغلی پر مزید جرح کے لئے دیکھئے اُس کی کتاب ’’تذکرۃ الخواص‘‘ اور محمد نافع تقلیدی جھنگوی کی کتاب ’’حدیثِ ثقلین‘‘ (ص 174)

اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 62 صفحہ 9 تا 12) بعنوان ’’توضیح الاحکام‘‘