نبی کریم ﷺ نے سیدنا حسن بن علی اور سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا:
’’ھما ریحا نتاي من الدنیا‘‘
وہ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں۔ (صحیح البخاری: 3753)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((حسین مني وأنا من حسین، أحبّ اللہ من أحبّ حسیناً، حسین سبط من الأسباط))
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے۔
(سنن الترمذی: 3775 وقال: ھذا حدیث حسن، مسند احمد 4/ 172، ماہنامہ الحدیث: 24 ص 48، یہ روایت حسن لذاتہ ہے)
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت:
﴿نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ﴾
اور (مباہلے کے لئے) ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ۔ (اٰل عمران: 16)
نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم اجمعین) کو بلایا اور فرمایا:
((اَللّٰھُمَّ ھٰؤ لاء أھلي))
اے اللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔
(صحیح مسلم: 32/2404 وترقیم دارالسلام: 6220)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
ایک دن صبح کو نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کے جسم مبارک پر اونٹ کے کجاوں جیسی دھاریوں والی ایک اونی چادر تھی تو حسن بن علی (رضی اللہ عنہما) تشریف لائے، آپ نے انھیں چادر میں داخل کر لیا۔ پھر حسین (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے، وہ چادر کے اندر داخل ہو گئے۔ پھر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تشریف لائیں تو انھیں آپ نے چادر کے اندر داخل کر لیا، پھر علی (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے تو انھیں (بھی) آپ نے چادر کے اندر داخل کر لیا۔
پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا﴾
اے اہلِ بیت! اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی دور کر دے اور تمھیں خوب پاک صاف کر دے۔ [الاحزاب: 33]
(صحیح مسلم: 61/2422 ودارالسلام: 6261)
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’نساؤہ من أھل بیتہ ولکن أھل بیتہ من حرم الصدقۃ بعدہ‘‘
آپ (ﷺ) کی بیویاں آپ کے اہلِ بیت میں سے ہیں لیکن (اس حدیث میں) اہلِ بیت سے مراد وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ (لینا) حرام ہے یعنی آلِ علی، آلِ عقیل، آلِ جعفر اور آلِ عباس۔
(صحیح مسلم: 2408 وترقیم دارالسلام:6225)
سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دائیں طرف فاطمہ کو اور بائیں طرف علی کو بٹھایا اور اپنے سامنے حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) کو بٹھایا (پھر) فرمایا:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا﴾
اے اہلِ بیت! اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی دُور کر دے اور تمھیں خوب پاک وصاف کردے۔ (الاحزاب: 33) اے اللہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔
(صحیح ابن حبان، الاحسان: 6937/6976، الموارد: 2245، ومسند احمد4/107 وصححہ البیہقی2/ 152 والحاکم 3/147 ح 4706 علیٰ شرط الشیخین ووافقہ الذہبی علیٰ شرط مسلم والحدیث سندہ صحیح)
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کے بارے میں فرمایا:
’’اللھم ھؤلا ء أھل بیتي‘‘
اے میرے اللہ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔
(المستدرک 2/ 416 ح 3558 وسندہ حسن وصححہ الحاکم علیٰ شرط البخاری)
مسند احمد (6/292 ح 26508 ب) میں صحیح سند سے اس حدیث کا شاہد (تائیدی روایت) موجود ہے۔
سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین کے اہلِ بیت میں ہونے کے بیان والی حدیث عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ (ترمذی: 3787 وسندہ حسن) سے مروی ہے۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ام سلمہ کو فرمایا:
’’أنت من أھلي‘‘
تو میرے اہل (بیت) سے ہے۔
(مشکل الآثار للطحاوی / تحفۃ الاخیار 8/471 ح6147 وسندہ حسن)
مختصر یہ کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا اہلِ بیت میں سے ہونا صحیح قطعی دلائل میں سے ہے، اس کے باوجود بعض بدنصیب حضرات ناصبیت کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’یہ اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں‘‘!!
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنۃ))
حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
(مسند احمد 3/3ح10999 عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ وسندہ صحیح، النسائی فی الکبریٰ: 8525 وفی خصائص علی:140)
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اس فرشتے (جبریل علیہ السلام) نے مجھے خوش خبری دی کہ
’’وأن الحسن والحسین سیّدا شباب أھل الجنۃ‘‘
اور بے شک حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
(ترمذی: 3781 واسنادہ حسن، وقال الترمذی: ’’حسن غریب‘‘ وصححہ ابن حبان، الموارد: 2229 وابن خزیمہ: 1194 والذہبی فی تلخیص المستدرک 3/381)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنۃ وأبوھما خیرمنھما))
حسن اور حسین اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے ابا (سیدناعلی رضی اللہ عنہ) ان دونوں سے بہتر ہیں۔
(المستدرک للحاکم 3/167 ح 4779 وسندہ حسن، وصححہ الحاکم ووافقہ الذہبی)
’’سید اشباب أھل الجنۃ‘‘ والی حدیث متواتر ہے۔ (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ص 207 ح:235، قطف الازہار المتناثرہ فی الاخبار المتواترہ للسیوطی ص 286 ح: 105، لقط اللآلی المتناثرہ فی الاحادیث المتواترہ للزبیدی ص 149 ح: 45)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((ھذان ابناي وابنا ابنتي، اللھم إنّي أحبھما فأحبھما وأحبّ من یحبّھما))
یہ دونوں (حسن وحسین) میرے بیٹے اور نواسے ہیں، اے میرے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تُو بھی ان دونوں سے محبت کر اور جو اِن سے محبت کرے تُو اس سے محبت کر۔
(الترمذی: 3769 وسندہ حسن وقال: ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ فیہ موسیٰ بن یعقوب الزمعی حسن الحدیث وثقہ الجمہور)
عطاء بن یسار (تابعی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انھیں ایک آدمی (صحابی) نے بتایا: انھوں نے دیکھا کہ نبی ﷺ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) کو سینے سے لگا کر فرما رہے تھے:
((اللھم إني أحبھما فأحبھما))
اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو (بھی) ان دونوں سے محبت کر۔
(مسند احمد 5/ 369 ح 23133 وسندہ صحیح)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((أحبو ا اللہ لما یغذوکم من نعمہ، وأحبوني بحب اللہ، وأحبوا أھل بیتي لحبي))
اللہ تمھیں جو نعمتیں کھلاتا ہے اُن کی وجہ سے اللہ سے محبت کرو، اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو، اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔
(الترمذی: 3789 وسندہ حسن، وقال الترمذی: ’’حسن غریب‘‘ و صححہ الحاکم 3/150 ح 4716 ووافقہ الذہبی وقال المزی: ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ / تہذیب الکمال 10/199، عبداللہ بن سلیمان النوفلی وثقہ الترمذی والحاکم والذہبی فھو حسن الحدیث)
سیدنا الامام ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ارقبوا محمدًا ﷺ في أھل بیتہ‘‘
محمد ﷺ کے اہلِ بیت (سے محبت) میں آپ کی محبت تلاش کرو۔
(صحیح بخاری: 3751)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((من أحبھما فقد أحبني ومن أبغضھما فقد أبغضني))
جس شخص نے ان (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) سے محبت کی تو یقینا اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بُغض کیا تو یقینا اس نے مجھ سے بُغض کیا۔
(مسند احمد 2/440 ح 9673 وفضائل الصحابۃ لاحمد: 1376 وسندہ حسن، وصححہ الحاکم 3/166 ح 4777 ووافقہ الذہبی / عبدالرحمٰن بن مسعود الیشکری وثقہ ابن حبان 5/106 والحاکم والذہبی وقال الہیثمی فی مجمع الزوائد 5/ 240: ’’وھو ثقۃ‘‘ فحدیثہ لا ینزل عن درجۃ الحسن)
اس روایت کو دوسری جگہ حافظ ذہبی نے قوی قرار دیا ہے۔ (دیکھئے تاریخ الاسلام 5/95 وقال: ’’وفی المسند بإسناد قوي‘‘)
ایک دفعہ نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) تشریف لے آئے تو آپ منبر سے اُتر گئے اور انھیں پکڑ کر اپنے سامنے لے آئے، پھر آپ نے خطبہ شروع کر دیا۔ (الترمذی: 3774 وسندہ حسن، ابو داود: 1109، النسائی 3/108 ح 1414، وقال الترمذی: ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ وصححہ الطبری فی تفسیرہ 28/ 81 وابن خزیمہ: 1456، 1801 وابن حبان، موارد الظمآن: 2230 والحاکم 1/287، 4/189 ووافقہ الذہبی، وقال الذہبی فی تاریخ الاسلام 5/97: ’’إسنادہ صحیح‘‘)
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کعبے کے سائے تلے بیٹھے ہوئے تھے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو آتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے فرمایا:
’’ھذا أحب أھل الأرض إلٰی أھل السماء الیوم‘‘
یہ شخص آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔
(تاریخ دمشق 14/ 181 وسندہ حسن، یونس بن ابی اسحاق برئ من التدلیس کما فی الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین 66/ 2ص 48)
مظلومِ کربلا کی شہادت کا المیہ:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
ایک دن میں نبی ﷺ کے پاس گیا تو (دیکھا) آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔
میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا کسی نے آپ کو ناراض کر دیا ہے؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟
آپ نے فرمایا: بلکہ میرے پاس سے ابھی جبریل (علیہ السلام) اُٹھ کر گئے ہیں، انھوں نے مجھے بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل (شہید) کیا جائے گا۔
(مسند احمد 1/85 ح 648 وسندہ حسن، عبداللہ بن نجی وابوہ صدوقان وثقہما الجمہور ولا ینزل حدیثہما عن درجۃ الحسن، انظر نیل المقصود فی تحقیق سنن ابی داود: 227)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
میں نے ایک دن دوپہر کو نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی۔
میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟
آپ نے فرمایا: یہ حسین ( رضی اللہ عنہ) اور اُن کے ساتھیوں کا خون ہے، میں اسے صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں۔
(مسند احمد 1/242 وسندہ حسن، دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 10ص 14تا 16، اورشمارہ: 20ص 18تا 23)
اس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر سخت غمگین تھے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ کے پاس حسین بن علی (رضی اللہ عنہ) موجود تھے اور آپ رو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی۔
(مشیخۃ ابراہیم بن طہمان: 3وسندہ حسن ومن طریق ابن طہمان رواہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق 14/192، ولہ طریق آخر عندالحاکم 4/398ح 8202 وصححہ علیٰ شرط الشیخین ووافقہ الذہبی)
شہر بن حوشب (صدوق حسن الحدیث، وثقہ الجمہور) سے روایت ہے کہ جب (سیدنا) حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) کی شہادت کی خبر عراق سے آئی تو ام سلمہ(رضی اللہ عنہا) نے فرمایا:
عراقیوں پر لعنت ہو، عراقیوں نے آپ کو قتل کیا ہے، اللہ انھیں قتل کرے۔ انھوں نے آپ سے دھوکا کیا اور آپ کو ذلیل کیا، اللہ انھیں ذلیل کرے۔
(فضائل الصحابۃ، زوائد القطیعی 2/782 ح 1392 وسندہ حسن، ومسند احمد 6/298 ح 26550 وسندہ حسن)
ہلال بن اساف (ثقہ تابعی) سے روایت ہے کہ:
(سیدنا) حسین (رضی اللہ عنہ) شام کی طرف یزید (بن معاویہ بن ابی سفیان) کی طرف جارہے تھے، کربلا کے مقام پر انھیں عمر بن سعد، شمر بن ذی الجوشن اور حصین بن نمیر وغیر ہم کے لشکر ملے۔
(امام) حسین نے فرمایا: مجھے یزید کے پاس جانے دو تاکہ میں اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں (بیعت کرلوں)۔
انھوں نے کہا: نہیں، ابن زیاد کے فیصلے پر اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو۔
(کتاب جمل من انساب الاشراف للبلاذری 3/1349 وسندہ صحیح)
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جب شہید کیا گیا تو آپ کا سر مبارک عبیداللہ بن زیاد (ابن مرجانہ، ظالم مبغوض) کے سامنے لایا گیا تو وہ ہاتھ کی چھڑی کے ساتھ آپ کے سر کو کُریدنے لگا۔
یہ دیکھ کر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
حسین (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ ﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔
(دیکھئے صحیح بخاری: 3748)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی (عراقی) نے مچھر (یا مکھی)کے (حالتِ احرام میں) خون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
اسے دیکھو، یہ (عراقی) مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا ہے اور انھوں نے نبی ﷺ کے بیٹے (نواسے) کو قتل (شہید) کیا ہے۔
(صحیح بخاری: 5994، 3753)
سعد بن عبیدہ (ثقہ تابعی) بیان کرتے ہیں کہ:
میں نے (سیدنا) حسین (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا، آپ ایک کپڑے (برود) کا جُبہ (چوغہ) پہنے ہوتے تھے۔
عمرو بن خالد الطہوی نامی ایک شخص نے آپ کو تیر مارا جو آپ کے چوغے سے لٹک رہا تھا۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر 14/214 وسندہ صحیح)
شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ:
میں نبی ﷺ کی زوجہ اُم سلمہ ( رضی اللہ عنہا) کے پاس موجود تھا۔ میں نے (سیدنا) حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت کی خبر سنی تو اُم سلمہ کو بتایا۔ (کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے ہیں)۔
انھوں نے فرمایا: ان لوگوں نے یہ کام کر دیاہے، اللہ ان کے گھروں یا قبروں کو آگ سے بھر دے۔ اور وہ (غم کی شدت سے) بے ہوش ہوگئیں۔
(تاریخ دمشق 14/ 229 وسندحسن)
سیدہ اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا (توفیت سنۃ 62ھ) نے فرمایا:
میں نے جنوں کو (امام) حسین (رضی اللہ عنہ کی شہادت) پر روتے ہوئے سُنا ہے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی 3/121 ح 2862، 3/122 ح 2867، فضائل الصحابہ لاحمد 2/776 ح 1373 وسندہ حسن)
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ (10) محرم (عاشوراء کے دن) اکسٹھ (61) ہجری میں شہید ہوئے۔ (دیکھئے تاریخ دمشق لابن عساکر 14/237 وھو قول اکثر اہل التاریخ)
یہ ہفتے (سبت) کا دن تھا۔ (تاریخ ابی زرعہ الدمشقی: 243 بسند صحیح عن ابی نعیم الفضل بن دکین الکوفی رحمہ اللہ)
بعض کہتے ہیں کہ سوموار کا دن تھا۔ (دیکھئے تاریخ دمشق 14/ 236)
بہت سے کفار اپنے کفر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو بُرا کہتے رہتے ہیں مگر رب رحیم انھیں دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے مگر جسے وہ پکڑلے تو اسے چھڑانے والا کوئی نہیں۔
مشہور جلیل القدر ثقہ تابعی ابو رجاء عمران بن ملحان العطاردی رحمہ اللہ نے جاہلیت کا زمانہ پایا ہے مگر صحابیت کا شرف حاصل نہ ہو سکا۔ وہ ایک سو بیس (120) سال کی عمر میں، ایک سو پانچ (105ھ) میں فوت ہوئے۔
ابو رجاء العطاردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
علی اور اہلِ بیت کو بُرا نہ کہو، ہمارے بلہجیم کے ایک پڑوسی نے (سیدنا) حسین رضی اللہ عنہ کو بُرا کہا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اندھا کر دیا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی 3/112 ح 2830 ملخصاً وسندہ صحیح)
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں بہت سی ضعیف ومردود اور عجیب وغریب روایات مروی ہیں جنھیں میں نے جان بوجھ کر یہاں ذکر نہیں کیا۔ دین کا دارومدار صحیح وثابت روایات پر ہے، ضعیف و مردود روایات پر نہیں۔
صد افسوس ہے ان لوگوں پر جو غیر ثابت اور مردود تاریخی روایات پر اپنے عقائد اور عمل کی بنیاد رکھتے ہیں بلکہ ببانگ دہل ان مردود روایات کو ’’مسلّم تاریخی حقائق‘‘ کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
تابعیِ صغیر ابراہیم بن یزید النخعی نے فرمایا:
اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنھوں نے حسین بن علی (رضی اللہ عنہ) کو قتل (شہید) کیا تھا، پھر میری مغفرت کر دی جاتی، پھر میں جنت میں داخل ہوتا تو میں نبی ﷺ کے پاس گزرنے سے شرم کرتا کہ کہیں آپ میری طرف دیکھ نہ لیں۔
(المعجم الکبیر للطبرانی 3/112 ح 2829 وسندہ حسن)
آخر میں ان لوگوں پر لعنت ہے جنھوں نے سیدنا ومحبوبنا وامامنا الحسین بن علی رضی اللہ عنہما کو شہید کیا یا شہید کرایا یا اس کے لئے کسی قسم کی معاونت کی۔
اے اللہ! ہمارے دلوں کو سیدنا الامام المظلوم الشہید حسین بن علی، تمام اہلِ بیت اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت سے بھر دے۔ آمین
سیدنا علی، سیدنا حسین اور اہلِ بیت سے نواصب حضرات بُغض رکھتے ہیں جبکہ شیعہ حضرات ان کے دعویِ محبت میں صحابۂ کرام سے بُغض رکھتے ہیں، اہلِ بیت کی محبت میں غلو کرتے اور ضروریاتِ دین کا انکار کرتے ہیں۔ یہ دونوں فریق افراط و تفریط والے راستوں پر گامزن ہیں۔ اہلِ سنت کا راستہ اعتدال اور انصاف والا راستہ ہے۔ والحمدللہ
اہلِ سنت کے ایک جلیل القدر امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری رحمہ اللہ نے شہادتِ حسین وغیرہ تاریخی واقعات کو ابو مخنف وغیرہ کذابین ومتروکین کی سند سے اپنی تاریخ طبری میں نقل کررکھا ہے۔ یہ واقعات وتفاصیل موضوع اور من گھڑت وغیرہ ہونے کی وجہ سے مردود ہیں لیکن امام طبری رحمہ اللہ بری ہیں کیونکہ انھوں نے سندیں بیان کردی ہیں۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ حدیث کی ہر کتاب سے صرف وہی روایت پیش کرنی چاہئے جس کی سند اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کی روشنی میں صحیح لذاتہ یا حسن لذاتہ ہو ورنہ پھر خاموشی ہی بہتر ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی مُسنَد متصل مرفوع تمام احادیث صحیح ہیں۔
اصل مضمون کے لئے دیکھئے محدّث العصر زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق میں ’’فضائل صحابہ‘‘ صفحہ نمبر 100 تا 109
نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو شمارہ 26 صفحہ 62 اور شمارہ 27 صفحہ 62
|