تکبیراتِ عیدین میں رفع الیدین کا ثبوت

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


امام اہل سنت، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (متوفی 241ھ) فرماتے ہیں:

’’حدثنا یعقوب: حدثنا ابن أخي ابن شہاب عن عمہ: حدثنی سالم بن عبد اللہ أن عبداللہ قال: کان رسول اللہ ﷺ إذا قام إلی الصلوۃ یرفع یدیہ، حتی إذا کا نتا حذو منکبیہ کبّر، ثم إذا أرادأن یرکع رفعھما حتی یکونا حذو منکبیہ، کبر وھما کذلک، رکع، ثم إذا أراد أن یرفع صلبہ رفعھما حتی یکوناحذو منکبیہ، ثم قال: سمع اللہ لمن حمد ہ، ثم یسجد، ولا یرفع یدیہ فی السجود، ویرفعھما في کل رکعۃ وتکبیرۃ کبّرھاقبل الرکوع، حتی تنقضي صلا تہ‘‘

رسول اللہ ﷺ جب نما زکے لئے کھڑے ہوتے تورفع یدین کرتے حتیٰ کہ آپ کے ہاتھ آپ کے کندھوں کے برابر ہوجاتے، آپ (ﷺ) تکبیرکہتے، پھر جب آپ رکوع کا ارادہ کرتے تو رفع یدین کرتے حتی کہ آپ کے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر ہوتے۔ آپ تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ اسی طرح ہوتے۔ آپ ﷺ رکوع کرتے، پھر جب آپ اپنی پیٹھ اُٹھانے کا ارادہ کرتے تورفع یدین کرتے حتی کہ آپ کے ہاتھ کندھوں کے برابر ہوتے۔ پھر آپ (ﷺ) فرماتے: ((سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ)) پھر آپ سجدہ کرتے اور سجدوں میں رفع یدین نہ کرتے۔ آپ ہر رکعت میں اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے، یہاں تک کہ آپ کی نماز پوری ہوجاتی۔

(مسند احمد ج 2 ص 133، 134ح 6175 والموسوعۃ الحدیثیہ ج 10 ص 315)

یہ سند حسن لذاتہ، صحیح لغیرہ ہے۔

شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’ھذا سند صحیح علی شرط الشیخین‘‘

یہ سند بخاری ومسلم کی شرط پرصحیح ہے۔

(ارواء الغلیل ج 3 ص 113 ح 640)

اسے امام عبد اللہ بن علی بن الجارود النیسا بوری رحمہ اللہ (متوفی 307ھ) نے اپنی کتاب ’’المنتقٰی‘‘ میں یعقوب بن ابراہیم بن سعد کی سند سے روایت کیا ہے۔ (ح 178)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ (متوفی 748ھ) فرماتے ہیں:

’’کتاب المنتقی فی السنن مجلد واحد فی الأحکام، لا ینزل فیہ عن رتبۃ الحسن أبدًا إلا فی النادرفی أحادیث یختلف فیھا اجتھاد النقاد‘‘

کتاب المنتقٰی فی السنن، احکام میں ایک مجلد ہے، اس کی حدیثیں حسن کے درجے سے کبھی نہیں گرتیں، سوائے نادر احادیث کے جن میں ناقدین کی کو شش میں اختلاف ہوتا ہے۔

(سیر اعلام النبلاء ج 14 ص 239)

اشرفعلی تھانوی دیوبندی صاحب ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’وأورد ھذا الحدیث ابن الجارودفی المنتقی فھو صحیح عندہ فإنہ لا یأتي إلا بالصحیح کما صرح بہ السیوطي فی دیباجۃ جمع الجوامع‘‘ بوادرالنوادر (ص 135)

(ترجمہ ازناقل: ابن الجارود نے یہ حدیث منتقی میں درج کی ہے۔ پس یہ ان کے نزدیک صحیح ہے کیو نکہ وہ صرف صحیح روایتیں ہی لاتے ہیں جیسا کہ سیوطی نے جمع الجوامع کے دیبا چہ میں لکھا ہے)

یعقوب بن ابراہیم کی سند سے یہی روایت امام دارقطنی (متوفی 385ھ) نے بیان کی ہے۔ (سنن الدارقطنی 1/ 289 ح 1104)

اب اس حدیث کے راویوں کی توثیق پیشِ خدمت ہے:

1: یعقوب بن ابراہیم بن سعد: ’’ثقۃ فاضل / من رجال الستۃ‘‘ (تقریب التہذیب:7811)

2: محمدبن عبد اللہ بن مسلم، ابن اخی الزہری: ’’صدوق حسن الحدیث، وثقہ الجمہور / من رجال الستۃ‘‘

ابن اخی الزہری کے بارے میں مکمل جرح و تعدیل کے لئے اصل مضمون دیکھیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک ابن اخی الزہری ثقہ وصدوق، صحیح الحدیث وحسن الحدیث ہیں۔ یاد رہے کہ ثقہ وصدوق راوی کی جن روایات میں وہم وخطاء بذریعہ محدثین ثابت ہو جائے تو وہ روایتیں مستثنیٰ ہو کر ضعیف ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ابن اخی الزہری کی ’’فا نتھی الناس عن القرأۃ معہ‘‘ والی روایت کی سند میں غلطی اور وہم ہے۔ دیکھئے مسند احمد (5/ 345 ح 22922 الموسو عۃ الحدیثیہ مع التخریج) وکتاب القراءت للبیہقی (325، 326)

فائدہ: ابن اخی الزہری کی عن الزہری عن سالم عن ابیہ والی سند صحیح بخاری (5574) وصحیح مسلم (4/1471) میں موجود ہے۔

تنبیہ: ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین والی روایت مذکورہ میں ابن ا خی الزہری کی متابعت محمد بن الولید الزبیدی نے کر رکھی ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔

3: محمد بن مسلم الزہری: متفق علی جلالتہ واتقانہ / من رجال الستۃ (التقریب: 6296)

امام زہری نے سماع کی تصریح کر دی ہے لہٰذا اس روایت میں تدلیس کا الزام مردود ہے۔

4: سالم بن عبد اللہ بن عمر: أحد الفقہاء السبعۃ وکان ثبتًا عابدًا فاضلاً /من رجال الستۃ (التقریب: 2176)

5: عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ: صحابی مشہور /من رجال الستۃ (التقریب: 3490)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت ابن اخی الزہری کی وجہ سے حسن لذاتہ (یعنی حجت ومقبول) ہے۔

ابن اخی الزہری کی متابعت

ابن اخی الزہری رحمہ اللہ رفع یدین والی اس روایت میں تنہا راوی نہیں ہیں بلکہ (محمد بن الولید) الزبیدی (ثقۃ ثبت من کبار أصحاب الزھري / من رجال البخاري ومسلم وأبي داودوالنسائي وابن ماجہ، التقریب: 6372) نے ان کی متابعت تامہ کر رکھی ہے لہٰذا ابن اخی الزہری پر اس روایت میں اعتراض سرے سے فضول ہے۔ والحمدللہ

الزبیدی کی متابعت والی روایت سنن ابی داود (722) سنن الدار قطنی (1/ 288 ح 1098) والسنن الکبری للبیہقی (3/292، 293) میں موجود ہے۔

الزبیدی سے یہ روایت بقیہ بن الولید نے بیان کی ہے اور بقیہ سے ایک جماعت نے اسے روایت کیا ہے۔

ابن الترکمانی نے مخالفت برائے مخالفت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بقیہ بن ولید پر ابن حبان، ابو مسہر اور سفیان بن عیینہ کی جرح نقل کی ہے (الجوہر النقی3/ 292، 293) جس کا تفصیلی جواب دیکھنے کے لئے اصل مضمون دیکھیں۔

تنبیہ: اگر کوئی یہ کہے کہ امام زہری کے دوسرے شاگرد یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بیان نہیں کرتے ہیں۔ تو عرض ہے کہ الزبیدی (ثقہ) اور ابن اخی الزہری (صدوق) کا یہ روایت بیان کرنا حجت ہونے کے لئے کافی ہے۔ اگر ایک ثقہ و صدوق راوی ایک روایت سند و متن میں زیادت کے ساتھ بیان کرے، جب کہ دوسرے بہت سے ثقہ و صدوق راوی یہ زیادت بیان نہ کریں تو اسی زیادت کا اعتبار ہوتا ہے۔ (والزیادۃ من الثقۃ مقبولۃ) نیز دیکھئے اصل مضمون۔

متن کی بحث

ابن التر کمانی و بعض الناس نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس روایت میں عیدین کا طریقہ مذکور نہیں ہے بلکہ عام نماز کی طرح ہے۔

عرض ہے کہ اس روایت میں درج ذیل مقامات پر رفع یدین کی صراحت موجود ہے:

1- تکبیر تحریمہ

2- رکوع سے پہلے

3- رکوع کے بعد

4- ہر رکعت میں

5- رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں (دیکھئے یہی مضمون، شروع)

حدیث صحیح کے الفاظ دوبارہ پیشِ خدمت ہیں:

’’ویرفعھما فی کل رکعۃ وتکبیرۃ کبّرھا قبل الرکوع حتی تنقضی صلا تہ‘‘

اور آپ (ﷺ) ہر رکعت میں اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے، یہاں تک کہ آ پ ﷺ کی نماز پوری ہو جاتی۔

(مسند احمد 2/ 134)

اب سوال یہ ہے کہ عیدین کی تکبیرات رکوع سے پہلے ہوتی ہیں یا رکوع کے بعد ہوتی ہیں؟ اگر پہلے ہوتی ہیں تو ضرور بالضرور اس حدیث کے عموم میں شامل ہیں۔

امام بیہقی نے بقیہ بن الولید کی حدیث کو تکبیرات عید اور ’’باب السنۃ فی رفع الیدین کلماکبر للرکوع‘‘ دونوں جگہ ذکر کیا ہے۔ (السنن الکبریٰ 3/ 292، 2/ 83)

معلوم ہوا کہ امام بیہقی کے نزدیک اس حدیث سے رفع یدین عند الرکوع اور رفع یدین فی العیدین دونوں جگہوں پر ثابت ہے۔ والحمدللہ

ایک اہم بات

ہم بحمداللہ اہلِ حدیث یعنی سلفی اہلِ حدیث ہیں۔ قرآن وحدیث واجماع کو حجت سمجھتے ہیں۔ قرآن و حدیث کا وہی مفہوم معتبر سمجھتے ہیں جو سلف صالحین سے ثابت ہے۔ آثار سلف صالحین سے استدلال اور اجتہاد کو جائز سمجھتے ہیں۔

حدیث مذکورسے درج ذیل سلف صالحین نے تکبیرات عیدین پر استدلال کیا ہے:

1- امام بیہقی رحمہ اللہ (السنن الکبری 3/ 292، 293 باب رفع الیدین فی تکبیر العید)

2- امام محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری (التلخیص الحبیر 2/ 86 ح 692)

سلف صالحین میں سے کسی نے بھی اس استدلال کا رد نہیں کیا لہٰذا محدث مبارکپوری اور محدث البانی رحمہما اللہ کا نظریہ، سلف صالحین کے استدلال کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

مولوی محمد افضل اثری (صاحب مکتبۃ السنۃ کراچی) لکھتے ہیں:

’’جیسا کہ امام بیہقی اور امام (ابن) منذر کا استدلال ذکر کرنے کے بعد شیخ الاسلام ابن حجر العسقلانی ’’تلخیص الحبیر 145 بحوالہ المرعاۃ 2/ 341‘‘ لکھتے ہیں:

والأولی عندی ترک الرفع لعدم ورود نص صریح فی ذلک، ولعدم ثبوتہ صریحاً بحدیث مرفوع صحیح۔

یعنی میرے نزدیک اولی یہ ہے کہ رفع یدین درزوائد تکبیرات نہ کیا جائے کیونکہ اس سلسلہ میں صریح قسم کی نص وارد نہیں ہے اور نہ ہی صراحتاً مرفوع صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے۔

یہی بات علامہ شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری، مولاناعبیداللہ مبارکپوری رحمہم اللہ تعالیٰ، علامہ البانی حفظہ اللہ نے ذکر کی ہے کہ اس سلسلہ میں کسی قسم کی صریح حدیث ثابت ووارد نہیں ہے‘‘

(ضمیمۃ ہدیۃ المسلمین ص 97 طبعہ غیر شرعیہ)

اس بیان میں محمد افضل اثری صاحب نے غلط بیانی کرتے ہوئے حافظ ابن حجر العسقلانی کی طرف وہ قول منسوب کر دیا ہے جس سے حافظ ابن حجر بالکل بَری ہیں۔ دیکھئے التلخیص الحبیر (ج 2 ص 86 ح 692)

اس صریح غلط بیانی کا دوسرا نام کذب و افتراء ہے۔ صاحب مرعاۃ المفاتیح (الشیخ عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ) کے قول کو حافظ ابن حجر کا قول بنا دینا اگر کذب و افتراء نہیں تو پھر کیاہے؟

یاد رہے کہ مولانا شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری، مولانا عبیداللہ مبارکپوری اور شیخ البانی رحمہم اللہ کے اقوال و ’’تحقیقات‘‘ درتکبیراتِ عیدین، امام عطاء بن ابی رباح، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ سلف صالحین کے مقابلے میں اور مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔

خلاصۃ التحقیق:

اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ابن اخی الزہری اور بقیہ والی روایت صحیح ہے۔ اور اس سے تکبیرات عیدین میں رفع یدین پر استدلال بالکل صحیح ہے۔ والحمدللہ

سلف صالحین کے آثار

اب تکبیرات عیدین میں رفع یدین کی مشروعیت پر سلف صالحین کے آثار پیشِ خدمت ہیں:

1- امام عبد الرحمٰن بن عمرو الاوزاعی الشامی رحمہ اللہ: ولید بن مسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:

’’قلت للأوزاعی: فأرفع یدي کرفعي فی تکبیرۃ الصلوۃ؟ قال: نعم، ارفع یدیک مع کلھن‘‘

میں نے اوزاعی سے کہا: کیا میں (عید میں) رفع یدین کروں، جیسے میں نماز میں رفع یدین کرتاہوں؟

انھوں نے کہا: جی ہاں تمام تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرو۔

(احکام العیدین للفریابی: 136 وإسنادہ صحیح)

2- امام مالک بن انس المدنی رحمہ اللہ: ولید بن مسلم سے روایت ہے:

’’سألت مالک بن أنس عن ذلک فقال: نعم، ارفع یدیک مع کل تکبیرۃ ولم أسمع فیہ شیئًا‘‘

میں نے مالک بن انس سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: جی ہاں، ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرو، اور میں نے اس میں کچھ بھی نہیں سنا۔

(احکام العیدین:137، وإسنادہ صحیح)

تنبیہ 1: امام مالک کا ’’ولم أسمع فیہ شیئًا‘‘ دو باتوں پر ہی محمول ہے۔

اول: میں نے اس عمل کے بارے میں کوئی حدیث نہیں سنی۔

دوم: میں نے اس عمل کے مخالف کوئی حدیث نہیں سنی۔

اول الذکر کے بارے میں عرض ہے کہ اگر امام مالک نے بقیہ بن الولید اور ابن اخی الزہری کی حدیث اور عطاء بن ابی رباح تابعی کا اثر نہیں سنا تو یہ بات ان دلائل کے ضعیف ہو نے کی دلیل نہیں ہے۔

تنبیہ 2: مجموع شرح المہذب للنووی (5/ 26) الاوسط لابن المنذر (4/ 282) اور غیر مستند کتاب المدونہ (1/ 169) وغیرہ میں اس اثر کے خلاف جو کچھ مروی ہے وہ بے سند وبے اصل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

3- امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ۔ دیکھئے کتاب الام (ج 1 ص 237)

4- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ۔ دیکھئے مسائل الامام احمد، روایۃ ابی داود (ص 60)

5- امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ۔ دیکھئے تاریخ ابن معین (روایۃ الدوری: 2284)

معلوم ہوا کہ مکہ، مدینہ اورشام وغیرہ میں سلف صالحین تکبیرات عیدین میں رفع یدین کے قائل و فاعل تھے۔ ان کے مقابلے میں محمد بن الحسن الشیبانی (مجروح عند الجمہور۔ نیز دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی 4/ 52 وسندہ صحیح، الحدیث حضرو: 7 ص 17) سے تکبیرات عیدین میں رفع یدین کی مخالفت مروی ہے۔ دیکھئے کتاب الاصل (1/ 374، 375) والاوسط لابن المنذر (4/ 282)

سفیان ثوری رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے کہ وہ تکبیرات مذکورہ میں رفع یدین کے قائل نہیں تھے۔ (مجموع 5/ 26 والاوسط 4/ 282) یہ قول بلا سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

بعض حنفیوں نے بغیر کسی سندمتصل کے ابو یوسف قاضی سے تکبیراتِ عید میں رفع یدین نہ کرنا نقل کیا ہے۔ یہ نقل دو وجہ سے مردود ہے۔

1- بے سند ہے۔

2- قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم کے بارے میں اما م ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ

’’ألا تعجبون من یعقوب، یقول علي مالا أقول‘‘

کیا تم لوگ یعقوب (ابو یوسف) پر تعجب نہیں کرتے، وہ میرے بارے میں ایسی باتیں کہتا ہے جو میں نہیں کہتا۔

(التاریخ الصغیر للبخاری ج 2 ص 210 وفیات:عشر إلی تسعین ومائۃ / وإسنادہ حسن ولہ شواہد ’’فالخبر صحیح‘‘ انظر تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء ص 124 ت 425)

معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ اپنے شاگرد قاضی ابو یوسف کو کذا ب سمجھتے تھے۔

تنبیہ: ایک روایت میں آیا ہے کہ عطاء بن ابی رباح المکی رحمہ اللہ زوائد تکبیراتِ عید میں رفع یدین کے قائل تھے۔ (مصنف عبدالرزاق 3/ 297 ح 5699)

اس روایت کے مرکزی راوی عبدالرزاق بن ہمام مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے۔

سفیان ثوری مدلس نے عبدالرزاق کی متابعت کر رکھی ہے۔ (دیکھئے السنن الکبری للبیہقی 3/ 293)

یہ روایت ان دونوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔

اختتام بحث:

تکبیرات عیدین میں رفع یدین کرنا بالکل صحیح عمل ہے۔ محدث مبارکپوری، شیخ البانی رحمہما اللہ اور بعض الناس کا اس عمل کی مخالفت کرنا غلط اور مردود ہے۔

……………… اصل مضمون ………………

اصل اور مکمل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 163 تا 179) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ