تجھے تو اچھی طرح سے نماز پڑھنی ہی نہیں آتی!

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


امام ابو العباس احمد بن علی الابار رحمہ اللہ نے فرمایا:

میں نے اہواز (ایک ایرانی شہر) میں ایک آدمی دیکھا، اس نے مونچھیں مونڈ رکھی تھیں اور میرا خیال ہے کہ اس نے کتابیں خرید رکھی تھیں اور فتویٰ دینے کے لئے تیار بیٹھا تھا۔

اس کے سامنے اصحاب الحدیث (یعنی اہل حدیث) کا تذکرہ کیا گیا تو وہ کہنے لگا: یہ کچھ چیز نہیں ہیں اور نہ کوئی چیز (اچھے طریقے سے) کر سکتے ہیں۔

تو میں نے اسے کہا: تجھے تو اچھی طرح سے نماز پڑھنی ہی نہیں آتی۔

اس نے کہا: مجھے؟!

میں نے کہا: ہاں!

جب تم نماز شروع کرو اور رفع یدین کرلو تو اس وقت کے بارے میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی کتنی حدیثیں یاد ہیں؟

تو وہ خاموش رہا۔

میں نے کہا: جب تم (رکوع میں) اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ لو تو اس وقت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی کتنی حدیثیں تجھے یاد ہیں؟

وہ چپ رہا۔

میں نے کہا: جب تم سجدہ کرتے ہو تو اس وقت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی کتنی حدیثیں تجھے یاد ہیں؟

وہ (صم بکم بنا) چپ رہا۔

میں نے کہا: تجھے کیا ہو گیا ہے، بات کیوں نہیں کرتا؟

کیا میں نے تجھے یہ نہیں کہا کہ تجھے اچھے طریقے سے نماز پڑھنا نہیں آتا؟

تم تو اس حالت میں ہو کہ اگر تمھیں بتایا جائے کہ نمازِ صبح کی دو رکعتیں ہیں اور ظہر کی چار رکعتیں ہے اور تم اس بات کو مضبوطی سے پکڑ لو تو یہ تمھارے لئے بہتر ہے، نہ یہ کہ تم اصحاب الحدیث کا (بُرا) تذکرہ کرتے پھرو۔

تُو (بذاتِ خود) کچھ چیز نہیں اور نہ تو کسی چیز کو اچھے طریقے سے کر سکتا ہے۔

(الکفایہ للخطیب 1/ 50 ح 1 وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ ص 4۔5)

یہ ہے انجام اور علمی مقام اس نام نہاد جعلی فقیہ کا جو اہلِ حدیث کی گستاخیاں کرتا تھا۔

تنبیہ: اس صحیح واقعے سے ثابت ہوا کہ امام ابو العباس احمد بن علی بن مسلم الابار البغدادی رحمہ اللہ اہلِ حدیث میں سے تھے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 6 صفحہ 127) نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 97 صفحہ 42)