اگر کسی شخص کا بیٹا فوت ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے پوتوں پوتیوں کے بارے میں وصیت لکھ دے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر 249:

وَبِہٖ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: ((مَا حَقُّ امْرِی ءٍ مُسْلِمٍ لَہُ شَيْءٌ یُوْصِيْ فِیْہِ یَبِیْتُ لَیْلَتَیْنِ إِلاَّ وَوَ صِیَّتُہُ عِنْدَہُ مَکْتُوبَۃٌ۔))

اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کسی مسلمان کے پاس وصیت والی کوئی چیز ہے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے پاس لکھنے (یا لکھوانے) کے بغیر دو راتیں بھی گزارے۔

تحقیق: سندہ صحیح

تخریج: متفق علیہ

الموطأ (روایۃ یحییٰ 2/ 761 ح 1530، ک 37 ب 1 ح 1) التمہید 14/ 290، الاستذکار: 1459

٭ وأخرجہ البخاری (2738) ومسلم (1627) من حدیث مالک بہ۔

تفقہ:

1- اس حدیث سے وصیت کا وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن دوسری صحیح حدیث نے اس حکم کو منسوخ کر دیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((فلا وصیۃ لوارث۔))

پس وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ہے۔

(سنن الترمذی: 2120 وسندہ حسن وقال الترمذی: ’’ھذا حدیث حسن‘‘ ورواہ ابو داود: 2870 وابن ماجہ: 2713)

2- جو شخص وارثوں کے علاوہ کسی دوسرے کے بارے میں ثلث (ایک تہائی) میں سے وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کے لکھنے میں جلدی کرے۔ اس جلدی کے مستحب ہونے پر اجماع ہے۔ دیکھئے التمہید (14/ 292)

3- قرآن مجید میں والدین اور رشتہ داروں کے بارے میں وصیت کا حکم ہے جسے لا وصیۃ لوارث والی حدیث نے منسوخ کر دیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ حدیث کے ساتھ نسخِ قرآن جائز ہے۔

4- اگر کسی شخص کا بیٹا فوت ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے پوتوں پوتیوں کے بارے میں وصیت لکھ دے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر 249 صفحہ 332 اور 333۔