مساجد میں عورتوں کی نماز کے دس دلائل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


مساجد میں مردوں کے پیچھے عورتوں کی نماز باجماعت کا جواز احادیثِ صحیحہ اور آثارِ سلف صالحین سے ثابت ہے، جس میں سے بعض دلائل درج ذیل ہیں:

دلیل نمبر 1

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اگر تمھاری عورتیں تم سے رات کو مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انھیں اجازت دے دو۔ (صحیح بخاری: 865، صحیح مسلم: 442، ترقیم دارالسلام: 988)

حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا: اس حدیث میں یہ فقہ ہے کہ عورت کے لئے رات کو مسجد جانا جائز ہے اور اس (کے عموم) میں ہر نماز داخل ہے۔ إلخ (التمہید ج 24 ص 281)

دلیل نمبر 2

ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جب عورتیں فرض نماز کا سلام پھیرتیں تو اُٹھ کھڑی ہوتی تھیں، رسول اللہ ﷺ اور مرد (صحابہ) بیٹھے رہتے تھے پھر جب رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوتے تو مرد بھی کھڑے ہو جاتے تھے۔ (صحیح بخاری: 866)

دلیل نمبر 3

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھاتے تو عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی جاتی تھیں، اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ (صحیح بخاری: 867، صحیح مسلم: 645، موطأ امام مالک 1/ 5ح3، روایۃ ابن القاسم : 494)

اس حدیث سے ظاہر ہے کہ عورتوں کا مساجد میں نماز ادا کرنا جائز ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو، اور انھیں بغیر خوشبو کے سادہ کپڑوں میں نکلنا چاہئے۔ سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے فرمایا: اگر آپ آج کل کی عورتوں کا حال دیکھتے تو انھیں منع کر دیتے۔ (مسند احمد 6/69، 70 وسندہ حسن)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور روایت میں آیا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ وہ کام دیکھتے جو عورتوں نے نکال لئے ہیں تو انھیں منع کر دیتے، جس طرح کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا۔ (صحیح بخاری: 869، صحیح مسلم: 445)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع والا حکم (جو کہ سابقہ شریعتوں میں تھا) منسوخ ہے۔ اب بنی اسرائیل کی منسوخ شریعت پر عمل نہیں بلکہ قیامت تک نبی کریم خاتم النبیین ﷺ کی شریعت پر ہی عمل ہو گا۔

دلیل نمبر 4

سیدنا ابو قتادہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور لمبی نماز پڑھنا چاہتا ہوں پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز مختصر کر دیتا ہوں تاکہ اُس کی ماں کو تکلیف نہ ہو۔ (صحیح بخاری: 868)

دلیل نمبر 5

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میں نماز میں داخل ہوتا ہوں اور لمبی نماز پڑھنے کا ارادہ کرتا ہوں پھر میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اُس کے رونے کی وجہ سے اُس کی ماں کو تکلیف ہو گی۔ (صحیح بخاری: 709، صحیح مسلم: 470 )

دلیل نمبر 6

سیدہ زینب الثقفیہ رضی اللہ عنہا (سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم عورتوں میں سے کوئی عورت عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں حاضر ہو تو خوشبو نہ لگائے۔ (صحیح مسلم: 443)

دلیل نمبر 7

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: عورتوں کو مسجدوں سے منع نہ کرو اور انھیں بغیر خوشبو کے سادہ کپڑوں میں جانا چاہئے۔ (مسند احمد 2/ 438 ح 9645 وسندہ حسن واللفظ لہ، سنن ابی داود: 565 وصححہ ابن خزیمہ: 1679، و ابن حبان: 2214)

دلیل نمبر 8

سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عورتو! جب مرد سجدہ کریں تو تم اپنی نظروں کی حفاظت کرو۔ (صحیح ابن خزیمہ : 1694، وسندہ صحیح، صحیح ابن حبان: 402 وصححہ الحاکم علیٰ شرط الشیخین 1 /191، 192، ووافقہ الذہبی)

یعنی مردوں کے تنگ تہبندوں کی وجہ سے کہیں تمھاری نظریں اُن کی شرمگاہ پر نہ پڑ جائیں۔

دلیل نمبر 9

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ مردوں سے پہلے (سجدے، رکوع سے) سر نہ اُٹھائیں۔ إلخ (صحیح ابن خزیمہ: 1695، صحیح ابن حبان: 2216 وسندہ صحیح)

نیز دیکھئے صحیح بخاری (362، 814، 1215) اور صحیح مسلم (441)

دلیل نمبر 10

سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو اللہ کی مسجدوں سے منع نہ کرو، اور انھیں بغیر خوشبو کے سادہ لباس میں نکلنا چاہئے۔ (صحیح ابن حبان: 2208 وسندہ حسن، دوسرا نسخہ: 2211 وحسنہ الہیثمی فی مجمع الزوائد 2/ 33)

ان احادیث مذکورہ اور دیگر احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عورتوں کے لئے مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور بہتر یہ ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں کیونکہ اُن پر نماز باجماعت فرض نہیں ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی عشاء کی نماز مسجد میں پڑھنے کے لئے جاتی تھیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انھیں منع نہیں کرتے تھے۔ دیکھئے صحیح بخاری (900)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ تو اس مسئلے میں اتنی سختی کرتے تھے کہ جب اُن کے ایک بیٹے نے کہا: ’’ہم تو عورتوں کو (مسجد سے) منع کریں گے۔‘‘ تو انھوں نے اپنے بیٹے کو شدید الفاظ کے ساتھ ڈانٹا اور اُس کی پٹائی کر دی۔ دیکھئے صحیح مسلم (442)

ایک عورت نے نذر مانی تھی کہ اگر اُس کا شوہر جیل سے باہر آ گیا تو وہ بصرے کی ہر مسجد میں دو رکعتیں پڑھے گی۔ اس کے بارے میں حسن بصری (رحمہ اللہ) نے فرمایا: اسے اپنی قوم کی مسجد میں نماز پڑھنی چاہئے۔ الخ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (2/ 484 ح 7617 وسندہ صحیح)

یعنی اُسے تمام مسجدوں میں نہیں بلکہ صرف اپنی (محلے کی) مسجد میں نماز پڑھ کر یہ نذر پوری کر لینی چاہئے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورتوں کی بہترین صف آخری صف ہے اور سب سے بُری صف پہلی صف ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 385 ح 7623 وسندہ حسن)

عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ کہا جاتا تھا کہ عورتوں کی بہترین صف آخری صف ہے اور سب سے بُری صف پہلی صف ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/385 ح 7624 وسندہ صحیح)

امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ نے فرمایا: اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے کہ عورتوں پر جمعہ (ضروری) نہیں ہے اور اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر وہ حاضر ہو کر امام کے ساتھ نماز پڑھ لیں تو یہ اُن کی طرف سے کافی ( یعنی جائز) ہے۔ دیکھئے الاوسط (ج4ص16م 492، 493)

عینی حنفی نے امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ ’’یباح لھن الخروج‘‘ عورتوں کے لئے (مسجد کی طرف نماز کے لئے) خروج مباح (جائز) ہے۔ دیکھئے عمدۃ القاری (ج 6 ص 156 تحت ح 864)

احادیثِ صحیحہ اور آثارِ سلف صالحین سے ثابت ہوا کہ عورتوں کا مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ وہ آدابِ شرعیہ اور پردے وغیرہ کا بہت التزام کریں۔ جمعہ کے دن گھروں میں بیٹھے رہنے سے بہتر یہ ہے کہ وہ مسجد جا کر امام کے پیچھے نمازِ جمعہ پڑھیں اور خطبہ سنیں تاکہ دین کی باتیں سیکھ لیں۔

حیرت ہے اُن لوگوں پر جو عورتوں کی تبلیغی جماعتیں نکالتے ہیں اور پھر عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع کرتے ہیں تاکہ وہ لا علم کی لاعلم رہیں اور دینی تعلیم سے دُور رہیں۔ اگر یہ لوگ اپنی عورتوں کو مسجد حرام اور مسجد نبوی سے بھی دُور رکھیں گے تو پھر بے چاری عورتیں طواف اور فضائل الحرمین سے محروم رہیں گی بلکہ ارکانِ حج بھی ادا کرنے سے قاصر رہیں گی اور اس کا غلط ہونا ظاہر ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں: ماہنامہ الحدیث شمارہ 62 صفحہ 40 تا 43

اسی طرح یہ مضمون تحقیقی اور علمی مقالات جلد 3 صفحہ 199 پر بھی موجود ہے۔