ورثاء کی موجودگی میں ایک تہائی مال کی وصیت جائز ہے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر: 68

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع والے سال رسول اللہ ﷺ میرے پاس میری شدید بیماری کی وجہ سے میری بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے تو میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجھے کتنا شدید درد (بیماری) ہے، میں مالدار آدمی ہوں اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کردوں؟

تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔

میں نے کہا: کیا آدھا مال صدقہ کردوں؟

تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔

پھر آپ ﷺ نے فرمایا: تیسرا حصہ صدقہ کر لو اور تیسرا حصہ بھی بہت زیادہ ہے۔ اگر تم اپنے وارثوں کو اس حالت میں چھوڑ جاؤ کہ وہ امیر ہوں تمھارے لئے اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں اس حالت میں چھوڑ جاؤ کہ وہ غریب ہوں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ تم اللہ کی رضامندی کے لئے جو کچھ خرچ کرتے ہو اس کا تمھیں اجر ملے گا حتیٰ کہ تم اپنی بیوی کو جو نوالہ کھلاتے ہو (تو اس کا بھی اجر ملے گا)۔

سعد (رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا؟

تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم (اپنے ساتھیوں سے) پیچھے نہیں رہو گے، پھر تم جو بھی نیک عمل کرو گے تو تمھارا درجہ بلند ہوگا اور عزت ملے گی اور ہو سکتا ہے کہ تم (میری وفات کے بعد) پیچھے (زندہ) رہو حتیٰ کہ تمھاری وجہ سے ایک قوم (مسلمانوں) کو فائدہ پہنچے گا اور دوسروں (کفار) کو نقصان ہوگا۔ اے میرے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت پوری فرما اور انھیں الٹے پاؤں واپس نہ پھیر۔ لیکن مصیبت زدہ تو سعد بن خولہ (رضی اللہ عنہ) ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اُن کے متعلق غم اور افسوس کرتے تھے کیونکہ وہ مکہ میں فوت ہوگئے تھے۔

تحقیق: صحیح

صرح ابن شہاب الزہری بالسماع عندالبخاری (56) والحمیدی (66)

تخریج: البخاري

الموطأ (روایۃ یحییٰ 2/ 763 ح 1533، ک17 ب 3 ح4) التمہید 8/ 374، 375، الاستذکار: 1462

٭ وأخرجہ البخاری (1295) من حدیث مالک بہ ورواہ مسلم (1628) من حدیث الزہری بہ۔ من روایۃ یحیی بن یحیی۔

فقہ الحدیث / فوائد:

1- ورثاء کے ہوتے ہوئے وصیت میں (صدقہ ہو یا ہبہ) اپنے تمام مال میں سے صرف ثلث (ایک تہائی) دینا ہی جائز ہے۔ اس سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے تاہم کوئی وارث نہ ہو تو بعض علماء کے نزدیک سارا مال صدقہ کرنا جائز ہے۔

2- اس روایت میں بعض راویوں نے ’’عام الفتح‘‘ یعنی حجۃ الوداع کے بدلے فتح مکہ کا سال روایت کیا ہے لیکن راجح یہی ہے کہ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔

3- مریض موت کے وقت جو بھی صدقہ، ہبہ یا غلام آزاد کرے گا تو اس کے ترکے کے ایک تہائی سے ہی ادا ہو گا۔

4- قرآن مجید کی تخصیص صحیح حدیث سے جائز ہے کیونکہ اس حدیث نے وصیت کے عمومی حکم کو مخصوص کر دیا ہے۔

5- بعض علماء نے کہا ہے کہ وارثوں کی رضامندی کے ساتھ ایک تہائی سے زیادہ وصیت کی جا سکتی ہے۔

6- اگر مرنے والا غریب ہے تو اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ ایک تہائی کی بھی وصیت نہ کرے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے لئے مال چھوڑ جائے تاکہ وہ لوگوں سے مانگتے نہ پھریں۔

7- اگر مفضول بیمار ہو تو سنت یہی ہے کہ افضل آدمی بھی اس کی عیادت (بیمار پرسی) کے لئے اس کے پاس جائے۔

سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((من عاد مریضًا خاض فی الرحمۃ حتی إذا قعد استقرفیھا))

جو شخص کسی مریض کی بیمار پرسی کرتا ہے تو رحمت (ہی رحمت) میں داخل ہو جاتا ہے اور جب وہ بیٹھتا ہے تو (رحمت میں) قرار پکڑلیتا ہے۔

(الادب المفرد للبخاری: 522 وسندہ حسن ولہ طریق آخر عند احمد 3/ 304 وابن حبان فی صحیحہ: 711 و الحاکم 1/ 350 والبزار: 775 وسندہ حسن)

8- اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ جو چیز اللہ کی رضامندی کے لئے خرچ کی جائے تو اس کا اجر ملے گا۔ إن شاء اللہ

9- اپنے اہل وعیال اور قریبی رشتہ داروں پر مال خرچ کرنا اور ان کی حسبِ استطاعت مدد کرنا بھی نیک کاموں اور صدقات میں سے ہے جس کا اجران شاء اللہ ملے گا۔

10- نبی کریم ﷺ پر قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی آتی تھی کیونکہ آپ کا یہ فرمانا: ’’تمھاری وجہ سے ایک قوم کو فائدہ پہنچے گا اور دوسروں کو نقصان ہو گا۔‘‘ غیب کی خبر ہے جو کہ من وعن پوری ہوئی۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے بعد زندہ رہے اور ایران آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا جس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا اور کفار کو نقصان ہوا۔ غیب صرف اللہ ہی جانتا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ خبر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو دی تھی۔ والحمدللہ

اس حدیث سے اور بھی بہت سے فائدے معلوم ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ:

1- مہاجر ہجرت کے بعد اپنے آبائی علاقے میں دوبارہ آباد نہیں ہو سکتا۔

2- مومن بھائی کی وفات پر اس کا مرثیہ کہنا یا لکھنا جائز ہے بشرطیکہ اس مرثیے میں غلو، مبالغہ اور جھوٹ شامل نہ ہو۔

3- نیز مصیبت پر تاسف اور اظہارِ ہمدردی کرنا مسنون ہے اور یہ بھی کہ اصل مصیبت دین اور اعمال کا نقصان ہے۔

وغیرذلک

اصل مضمون کے لئے دیکھئے الاتحاف الباسم (ص 150 تا 153)