شریعت میں باطنیت کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ ظاہر کا اعتبار ہے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ [سے] مؤاخذہ ہو جاتا تھا۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور ہم صرف انھی اُمور میں مؤاخذہ کریں گے جو تمھارے عمل سے ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے۔ اس لیے جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا، ہم اسے امن دیں گے اور اپنے قریب رکھیں گے۔ اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں بُرائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے‘ خواہ وہ یہی کہتا رہے کہ اس کا باطن اچھا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۲۶۴۱، طبع مکتبہ اسلامیہ ج۴ص ۲۷ واللفظ لہ)

اس فاروقی اثر سے کئی مسئلے ثابت ہوئے:

  1. جو لوگ کتاب و سنت پر عمل نہیں کرتے مثلاً داڑھیاں منڈاتے یا منڈواتے ہیں، منشیات استعمال کرتے ہیں، قسما قسم کے گناہوں میں غرق ہیں، جب انھیں کہا جاتا ہے کہ نماز پڑھو، داڑھی منڈوانا حرام ہے اور تمام گناہوں سے بچ جاؤ تو بدمعاش بدکار فاسق کہتے ہیں: ’’ظاہری اعمال سے کیا ہوتا ہے بلکہ دل اچھا ہونا چاہئے اور ہمارے دلوں میں ایمان ہے‘‘۔ یہ روایت ان فساق و فجار پر زبردست رد ہے، کیونکہ اگر دل اچھا ہوتا تو پھر اعمال بھی اچھے ہوتے اور مسلسل بُرے اعمال اس کی دلیل ہیں کہ دل سیاہ اور داغدار ہو چکا ہے۔ أعاذنا اللہ منہ

  2. شریعت میں باطنیت کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ ظاہر کا اعتبار ہے۔

  3. سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو الہام یا کشف نہیں ہوتا تھا ورنہ وہ لوگوں کے دلوں کے حالات معلوم کر لیتے۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کشف والہام نہیں ہوتا تھا تو پھر دوسرے اولیاء اور نام نہاد صوفیاء کس شمار و قطار میں ہیں؟!

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں وحدت الوجودی تصوف والوں نے مختلف جھوٹے قصے مشہور کر رکھے ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ ایک دفعہ انھوں (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ)نے بہت دور سے کہا تھا: ’’یا ساریۃُ الجبلَ‘‘ اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہوجا۔

    یہ سب قصے اصولِ حدیث اور علم اسماء الرجال کی رُو سے غیر ثابت اور مردود ہیں۔

  4. وحی (اور الہام) کا سلسلہ اب ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا ہے۔

  5. کتاب و سنت پر عامل شخص ہی ثقہ اور عادل ہوتا ہے، شریعت میں اسے زبردست حقوق حاصل ہیں بلکہ ہر ممکن طریقے سے اس کا احترام اور دفاع کرنا چاہئے۔

  6. فاسق مثلاً داڑھی منڈے کی گواہی ناقابلِ اعتبار اور مردود ہوتی ہے۔

  7. اہلِ ایمان کے بارے میں ہر وقت حسنِ ظن اور اُمیدِ خیر رکھنی چاہئے اور ان کی نجی زندگی و پوشیدہ اُمور کے بارے میں کسی قسم کی جاسوسی کبھی نہیں کرنی چاہئے۔

  8. ہر زمانے میں مسلمان حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہے بلکہ اُن پر فرض ہے کہ قرآن و حدیث کا نظام اپنے ممالک میں نافذ کریں بلکہ پوری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی کوشش میں مسلسل مشغول رہیں۔ نیز دیکھئے سورۃ المائدہ (۴۴)

  9. گواہی صرف ثقہ و عادل کی ہی مقبول ہوتی ہے۔

  10. جو لوگ کہتے ہیں کہ ’’فلاں فلاں پیر غیب جانتے ہیں‘‘ ان کی یہ بات بالکل جھوٹ اور باطل ہے، وحی کے بغیر غیب کا علم محال ہے اور وحی کا دروازہ قیامت تک کے لئے بند ہو چکا ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ نمبر 75 صفحہ 2 اور 3