یہ نہیں کرنا کہ اپنی مرضی کی روایت کو صحیح و ثابت کہہ دیں اور دوسری جگہ اسی کو ضعیف کہتے پھریں۔ یہ کام تو آلِ تقلید کا ہے!

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


ہم جب کسی راوی کو ثقہ و صدوق حسن الحدیث یا حدیث کو صحیح و حسن لذاتہ قرار دیتے ہیں تو اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے، تناقض و تعارض سے ہمیشہ بچتے ہوئے، غیر جانبداری سے اور صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے راوی کو ثقہ و صدوق حسن الحدیث اور حدیث کو صحیح و حسن قرار دیتے ہیں۔

ایک دن مر کر اللہ کے دربار میں ضرور بالضرور اور یقینا پیش ہونا ہے۔

یہ نہیں کہ اپنی مرضی کی روایت کو صحیح و ثابت کہہ دیں اور دوسری جگہ اسی کو ضعیف کہتے پھریں۔ یہ کام تو آلِ تقلید کا ہے!

اگر کوئی شخص میری کسی تحقیق یا عبارت میں سے تضاد و تعارض ثابت کر دے تو اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ علانیہ رجوع کروں گا، توبہ کروں گا اور جو بات حق ہے برملا اس کا اعلان کروں گا۔ لوگ ناراض ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، بس اگر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے تو اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔ اے اللہ! میری ساری خطائیں معاف کر دے۔ آمین

صحیح بخاری وصحیح مسلم اور مسلکِ حق: مسلکِ اہلِ حدیث کے لئے میری جان بھی حاضر ہے۔ یہ باتیں جذباتی نہیں بلکہ میرے ایمان کا مسئلہ ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (ج 2 ص 259۔260)