Sheikh Zubair Alizai

Mishkaat ul Masabeeh Hadith 5902 (مشکوۃ المصابیح)

[5902] متفق علیہ، رواہ البخاري (933) و مسلم (8، 9 / 897)

تحقیق وتخریج:محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

وَعَن أنسٍ قَالَ أَصَابَت النَّاس سنَةٌ عَلَی عَہْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَبَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّی اللہ عَلَيْہِ وَسلم يخْطب فِي يَوْم جُمُعَة قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ ہَلَكَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِيَالُ فَادْعُ اللہَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْہِ وَمَا نَرَی فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ مَا وَضَعَہَا حَتَّی ثَارَ السَّحَابُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِہِ حَتَّی رَأَيْت الْمَطَر يتحادر علی لحيتہ صلی اللہ عَلَيْہِ وَسلم فمطرنا يَوْمنَا ذَلِك وَمن الْغَد وَبعد الْغَد وَالَّذِي يَلِيہِ حَتَّی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی وَقَامَ ذَلِكَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ قَالَ غَيْرُہُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ تَہَدَّمَ الْبِنَاءُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اللہَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْہِ فَقَالَ اللہُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَمَا يُشِيرُ بِيَدِہِ إِلَی نَاحِيَةٍ مِنَ السَّحَابِ إِلَّا انْفَرَجَتْ وَصَارَتِ الْمَدِينَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ وَسَالَ الْوَادِي قَنَاةُ شَہْرًا وَلَمْ يَجِئْ أَحَدٌ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: ((اللہُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اللہُمَّ عَلَی الْآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ)) . قَالَ: فَأَقْلَعَتْ وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشّمسِ مُتَّفق عَلَيْہِ

انس ؓ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں لوگ قحط سالی کا شکار ہو گئے،اس دوران کے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے،ایک اعرابی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا،اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہو گئے،بال بچے بھوک کا شکار ہو گئے،اللہ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں،آپ نے ہاتھ بلند فرمائے،اس وقت ہم آسمان پر بادل کا ٹکڑا تک نہیں دیکھ رہے تھے،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! آپ نے ابھی انہیں نیچے نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح بادل چھا گئے،پھر آپ اپنے منبر سے نیچے نہیں اترے تھے کہ میں نے بارش کے قطرے آپ کی داڑھی مبارک پر گرتے ہوئے دیکھے،اس روز اگلے روز یہاں تک کہ دوسرے جمعے تک بارش ہوتی رہی پھر دوسرے جمعہ کو وہی اعرابی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا،اللہ کے رسول! مکان گر گئے،مال ڈوب گیا،آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں،آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی:’’اے اللہ! ہمارے آس پاس بارش برسا،ہم پر نہ برسا۔‘‘ آپ بادلوں کے جس کونے کی طرف اشارہ فرماتے تو ادھر سے بادل چھٹ جاتا اور مدینہ حوض کی طرح بن چکا تھا،جبکہ وادی قناۃ کا نالہ مہینہ بھر بہتا رہا،اور مدینہ کے آس پاس سے جو بھی آتا وہ خوب سیرابی کی بات کرتا۔ایک دوسری روایت میں ہے،آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:’’اے اللہ ہمارے آس پاس بارش برسا،ہم پر نہ برسا،اے اللہ! ٹیلوں پر،پہاڑوں پر،وادیوں میں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر بارش برسا۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں،بارش تھم گئی اور ہم نکلے تو ہم دھوپ میں چل رہے تھے۔متفق علیہ۔