Sheikh Zubair Alizai

Mishkaat ul Masabeeh Hadith 5908 (مشکوۃ المصابیح)

[5908] متفق علیہ، رواہ البخاري (3578) و مسلم (142/ 2040) الروایۃ الثانیۃ، رواھا مسلم (143/ 2040) و الروایۃ الثالثۃ، رواھا البخاري (5450) و الروایۃ الرابعۃ، رواھا مسلم (143/ 2040)

تحقیق وتخریج:محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

وَعَن أنسٍ قَالَ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللہِ ﷺ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيہِ الْجُوعَ فَہَلْ عِنْدَكِ من شَيْء؟ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَہَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِہِ ثُمَّ دَسَّتْہُ تَحْتَ يَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِہِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ فَذَہَبْتُ بِہِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَہُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْہِمْ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟)) قُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِمَنْ مَعَہُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيہِمْ حَتَّی جِئْت أَبَا طَلْحَة فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُہُمْ فَقَالَتْ اللہُ وَرَسُولہ أعلم قَالَ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّی لَقِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَہُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بذلك الْخبز فَأمر بِہِ ففت وعصرت أم سليم عكة لَہَا فأدمتہ ثمَّ قَالَ فِيہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا شَاءَ اللہُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَہُمْ فَأَكَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَہُمْ فَأَكَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَہُمْ فَأَكَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثمَّ خَرجُوا ثمَّ أذن لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّہُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْہِ وَفِي رِوَايَةٍ لمُسلم أَنہ قَالَ: ((أذن لِعَشَرَةٍ)) فَدَخَلُوا فَقَالَ: ((كُلُوا وَسَمُّوا اللہَ)) . فَأَكَلُوا حَتَّی فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَہْلُ الْبَيْتِ وَتَرَكَ سُؤْرًا وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ قَالَ: ((أَدْخِلْ عَلَيَّ عَشَرَةً)) . حَتَّی عَدَّ أَرْبَعِينَ ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ ہَلْ نَقَصَ مِنْہَا شَيْءٌ؟ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: ثُمَّ أَخَذَ مَا بَقِيَ فَجَمَعَہُ ثُمَّ دَعَا فِيہِ با لبركة فَعَاد كَمَا كَانَ فَقَالَ: ((دونكم ہَذَا))

انس ؓ بیان کرتے ہیں،ابوطلحہ ؓ نے ام سلیم ؓ سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز کمزور سی سنی ہے،جس سے میں نے بھوک کا اندازہ لگایا ہے،کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں،انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں،پھر اپنی اوڑھنی نکالی اور روٹیوں کو لپیٹ کر چادر کے ایک کونے میں باندھ کر میرے ہاتھ میں تھما دیا،پھر مجھے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھیج دیا،میں وہ لے کر چلا گیا،میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مسجد میں پایا اور آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے،میں نے انہیں سلام کیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا:’’تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ نے فرمایا:’’کھانا دے کر؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حاضرین سے فرمایا:’’کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ آپ چلے اور میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا حتیٰ کہ میں نے ابوطلحہ ؓ کے پاس پہنچ کر انہیں بتایا تو ابوطلحہ ؓ نے فرمایا: ام سُلیم! رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چند ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے ہیں،جبکہ ہمارے پاس تو ایسی کوئی چیز نہیں جو انہیں کھلانے کے لیے پیش کر سکیں،انہوں نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں،ابوطلحہ ؓ گئے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات کی،پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابوطلحہ ؓ کے ساتھ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:’’ام سلیم! تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ لے آؤ۔‘‘ وہ وہی روٹیاں لے آئیں،رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرمان پر ان روٹیوں کو چورا کیا گیا اور ام سلیم ؓ نے ان پر گھی کا مشکیزہ نچوڑا اور اسے سالن بنایا،پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کھانے کے بارے میں وہ دعا فرمائی جو اللہ تعالیٰ نے چاہی پھر فرمایا:’’دس آدمیوں کو بلاؤ،انہیں بلایا گیا انہوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا،پھر وہ چلے گئے،پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:’’دس کو بلاؤ،اس طرح سب لوگوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا،وہ ستر یا اسّی افراد تھے۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:’’دس افراد کو بلاؤ۔‘‘ وہ آئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:’’اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔‘‘ انہوں نے کھایا حتیٰ کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسّی افراد سے ایسے ہی فرمایا،پھر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور گھر والوں نے کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے،آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:’’میرے پاس دس آدمی بھیجو،حتیٰ کہ آپ نے چالیس افراد گنے،پھر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھانا کھایا،میں دیکھنے لگا کہ کیا اس میں کوئی کمی آتی ہے؟ اور صحیح مسلم کی روایات میں،پھر جو کھانا بچ گیا،آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اکٹھا کیا،پھر اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو وہ جتنا تھا اتنا ہی ہو گیا،پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:’’اسے لے لو۔‘‘ متفق علیہ۔