Sheikh Zubair Alizai

Mishkaat ul Masabeeh Hadith 6036 (مشکوۃ المصابیح)

[6036] متفق علیہ، رواہ البخاري (3683) و مسلم (22/ 2396)

تحقیق وتخریج:محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: اسْتَأْذن عمر رَضِيَ اللہُ عَنْہُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَعِنْدَہُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَہُ وَيَسْتَكْثِرْنَہُ عَالِيَةً أَصْوَاتُہُنَّ فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ قُمْنَ فَبَادَرْنَ الْحِجَابَ فَدَخَلَ عُمَرُ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ يَضْحَكُ فَقَالَ: أَضْحَكَ اللہُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللہِ. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ((عَجِبْتُ مِنْ ہَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ)) قَالَ عُمَرُ: يَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِہِنَّ أَتَہَبْنَنِي وَلَا تَہَبْنَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسلم؟ قُلْنَ: نَعَمْ أَنْتَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ. فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((إِيہٍ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ)) . مُتَّفَقٌ عَلَيْہِ. وَقَالَ الْحُمَيْدِيُّ: زَادَ الْبَرْقَانِيُّ بَعْدَ قَوْلِہِ: يَا رَسُولَ اللہِ: مَا أَضْحَكَكَ

سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں،عمر بن خطاب ؓ نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی،اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند خواتین (آپ کی ازواج مطہرات) تھیں،وہ آپ سے بلند آواز میں گفتگو کر رہیں تھیں اور آپ سے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر رہی تھیں،جب عمر ؓ نے اجازت طلب کی تو وہ کھڑی ہوئیں اور جلدی سے پردے میں چلی گئیں،عمر ؓ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس رہے تھے،انہوں نے عرض کیا،اللہ کے رسول! اللہ آپ کو سدا خوش رکھے۔نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:’’مجھے ان پر تعجب ہے کہ وہ میرے پاس تھیں،جب انہوں نے آپ کی آواز سنی تو وہ فوراً حجاب میں چلی گئیں۔‘‘ عمر ؓ نے فرمایا: اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو لیکن رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نہیں ڈرتی ہو،انہوں نے فرمایا: ہاں،آپ سخت مزاج اور سخت دل ہیں،رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:’’ابن خطاب! اور کچھ کہو،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا مل جاتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔‘‘ متفق علیہ۔ اور امام حمیدی ؒ بیان کرتے ہیں،برقانی نے ’’یا رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کے بعد ’’ما أضحک‘‘ ’’آپ کو کس چیز نے ہنسایا‘‘ کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔