چالیس حدیثیں یاد کرنے والی روایت

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


وعن أبی الدرداء قال: سئل رسول اللہ ﷺ: ما حدّ العلم الذي إذا بلغہ الرجل کان فقیھًا؟ فقال رسول اللہ ﷺ: ((من حفظ علٰی أمتي أربعین حدیثًا في أمر دینھا بعثہ اللہ فقیھًا وکنتُ لہ یوم القیامۃ شافعًا و شھیدًا۔))

اور (سیدنا) ابو الدرداء (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا:

علم کی وہ کون سی حدہے جس پر پہنچ کر آدمی فقیہ بن جاتا ہے؟

تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

جو شخص میری اُمت کے لئے دینی اُمور میں چالیس حدیثیں حفظ کرے، اللہ اُسے فقیہ مبعوث فرمائے گا (یعنی قیامت کے دن بطورِ فقیہ اُٹھائے گا) اور میں قیامت کے دن اس کے لئے شفاعت کرنے والا اور گواہ ہوں گا۔

[اسے بیہقی نے شعب الایمان (1726، دوسرا نسخہ: 1597) میں روایت کیا ہے۔]

تحقیق الحدیث:

اس کی سند موضوع ہے۔

اس کا راوی عبدالملک بن ہارون بن عنترہ کذاب (جھوٹا) تھا۔

امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: ’’کذاب‘‘ عبدالملک بن ہارون بن عنترہ کذاب ہے۔ (تاریخ ابن معین، راویۃ الدوری: 1516)

حافظ ابن حبان نے کہا: ’’کان ممن یضع الحدیث ۔۔۔‘‘ وہ حدیثیں گھڑنے والوں میں سے تھا۔ (کتاب المجروحین 2/ 133، دوسرا نسخہ 2/ 115)

حاکم نیشاپوری نے گواہی دی: ’’روی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ۔‘‘ اس نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں بیان کیں۔ (المدخل الی الصحیح ص 170 ت 129)

یہ روایت بھی (اس تک بشرطِ صحت) اُس نے اپنے باپ سے بیان کی، لہٰذا یہ سند موضوع ہے۔

امام بیہقی سے لے کر عبدالملک بن ہارون تک سند بھی صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں عبداللہ بن نعمان البصری اور عمرو بن محمد صاحبِ یعلی بن الاشدق وغیرہما مجہول راوی ہیں۔

امام بیہقی نے فرمایا: یہ متن لوگوں کے درمیان مشہور ہے اور اس کی کوئی سند صحیح نہیں ہے۔ (شعب الایمان: 1727، دوسرا نسخہ: 1598)

چالیس حدیثیں یاد کرنے والی روایت کی اور بھی بہت سی سندیں ہیں، لیکن ان میں سے کوئی سند بھی صحیح یا حسن نہیں، لہٰذا یہ روایت حسن کے درجے تک نہیں پہنچتی۔

ابن الملقن نے کہا: ’’و اتفق الحفاظ علٰی ضعفھا و إن تعددت‘‘ اگرچہ اس کی سندیں متعدد ہیں، لیکن حفاظِ حدیث کا اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ (البدر المنیر ج 7 ص 278)

نیز دیکھئے التلخیص الحبیر (3/ 93۔ 94 ح 1375)

حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا: ’’و إسناد ھذا الحدیث کلہ ضعیف‘‘ اور اس حدیث کی ساری سندیں ضعیف ہیں۔ (جامع بیان العلم و فضلہ 1/ 95 تحت ح 156)

تنبیہ:

چونکہ بعض علمائے سابقین نے اربعین وغیرہ اعداد پر کتابیں لکھی ہیں، لہٰذا اقتدائے سلف کی وجہ سے ایسا کرنا جائز ہے اور یہ جواز من باب الاجتہاد ہے۔ واللہ اعلم

اصل مضمون کے لئے دیکھئے اضواء المصابیح حدیث 258 اور ماہنامہ الحدیث شمارہ 81 صفحہ 5 اور 6