ائمہ کرام سے اختلاف، دلائل کے ساتھ

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


غلام رسول سعیدی بریلوی نے لکھا ہے:

’’بعض جمود پسند لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ صحابہ سب مجتہد تھے ان کا ایک دوسرے سے اختلاف جائز ہے ہم مقلد ہیں، ہمارا ائمہ اور اکابر علماء سے اختلاف جائز نہیں، میں کہتا ہوں کہ دلائل کی بناء پر ہمارے فقہاء نے امام ابو حنیفہ سے بھی اختلاف کیا ہے، مثلاً علامہ ابن نجیم نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک شوال کے چھ روزے رکھنا مکروہ ہے خواہ متفرقاً رکھے جائیں یا متصلاً اور امام ابو یوسف کے نزدیک یہ روزے متصلاً رکھنا مکروہ ہیں لیکن عام متاخرین کے نزدیک ان میں کراہت نہیں ہے۔

(البحر الرائق ج 2 ص 258 مطبوعہ مطبعہ علمیہ مصر، 1311ھ)

اور علامہ شرنبلالی نے لکھاہے کہ شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے بعد متصل چھ روزے رکھے اس کو دائماً روزہ رکھنے کا اجر ملے گا۔ (صحیح مسلم ج 1ص 369)

(مراقی الفلاح ص 387، مطبوعہ مطبع مصطفی البابی واولادہ مصر، 1356ھ)

اسی طرح عقیقہ کو امام ابو حنیفہ نے مباح کہا ہے لیکن ہمارے فقہاء نے حدیث کی بناء پر کہا یہ سنت ہے اور کار ثواب ہے۔ بہرحال قرآن اور حدیث سب پر مقدم ہیں اور قرآن اور حدیث کے دلائل کی وجہ سے اکابر علماء سے اختلاف کرنا جائز ہے اور میری زندگی کا یہی مشن ہے کہ قرآن اور حدیث کی بالادستی بیان کروں۔‘‘

(تبیان القرآن ج 1 ص 584، طبع 2005ء)

………… تبصرہ …………

سعیدی صاحب کی زندگی کا مقصد تو اللہ جانتا ہے اور اہل حدیث بھی یہی کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث سب پر مقدم ہیں۔ قرآن اور حدیث کے دلائل کے ساتھ اکابر علماء سے ادب واحترام کے ساتھ اختلاف کرنا جائز ہے اور اسی میں خیر ہے۔

………… اصل مضمون …………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 6 صفحہ 585) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ