اہلِ حدیث کے نزدیک قرآن و حدیث اور اجماع کے صریح مخالف ہر قول مردود ہے خواہ اسے بیان کرنے یا لکھنے والا کتنا ہی عظیم المرتبت کیوں نہ ہو

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


اہلِ حدیث اکابر پرست نہیں ہیں۔

وحید الزمان صاحب ہو یا نواب صدیق حسن خان صاحب، نورالحسن ہو یا بٹالوی صاحب ہوں، ان میں سے کوئی بھی اہلِ حدیث کے اکابر میں سے نہیں ہے اور اگر ہوتے بھی تو اہلِ حدیث اکابر پرست نہیں ہیں۔

وحید الزمان صاحب تو متروک تھے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 23 ص 36، 40

ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی تقلیدی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اہلِ حدیث کے علماء اور عوام بالاتفاق وحید الزمان وغیرہ کی کتابوں کو غلط قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔ (تحقیق مسئلہ تقلید ص 6)

شبیر احمد عثمانی دیوبندی کو وحید الزمان کا (صحیح بخاری کا) ترجمہ پسند تھا۔ (دیکھئے فضل الباری ج1ص 23، از قلم: محمد یحییٰ صدیقی دیوبندی)

وحیدالزمان صاحب عوام کے لئے تقلید کو واجب سمجھتے تھے۔ [دیکھئے نزل الابرار (ص 7) شائع کردہ آلِ دیوبند لاہور] لہٰذا انصاف یہی ہے کہ وحید الزمان کے تمام حوالے آلِ دیوبند اور آلِ تقلید کے خلاف پیش کرنے چاہئیں۔

نواب صدیق حسن خان صاحب (تقلید نہ کرنے والے) حنفی تھے۔ (مآثر صدیقی حصہ چہارم ص 1، دیکھئے حدیث اور اہلِ حدیث ص 84)

نور الحسن مجہول الحال ہے اور اس کی طرف منسوب کتابیں اہلِ حدیث کے نزدیک معتبر کتابوں کی فہرست میں نہیں ہیں بلکہ یہ تمام کتابیں غیر مفتیٰ بہا اور غیر معمول بہا مسائل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔

محمد حسین بٹالوی صاحب رحمہ اللہ اہلِ حدیث عالم تھے لیکن اکابر میں سے نہیں تھے، بلکہ ایک عام عالم تھے جنھوں نے سب سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ ان کی کتاب ’’الاقتصاد‘‘ مردود کتابوں میں سے ہے۔ بٹالوی صاحب کی پیدائش سے صدیوں پہلے روئے زمین پر اہلِ حدیث موجود تھے۔ مثلاً دیکھئے ماہنامہ الحدیث: 29 ص 13 تا 33

خلاصہ یہ کہ ان علماء اور دیگر علماء اصاغر کے حوالے اہلِ حدیث کے خلاف پیش کرنا ظلمِ عظیم ہے۔ اگر کچھ پیش کرنا ہے تو اہلِ حدیث کے خلاف قرآن مجید، احادیثِ صحیحہ، اجماع اور سلف صالحین مثلاً صحابہ و ثقہ تابعین و ثقہ تبع تابعین و کبار محدثین کے حوالے پیش کریں بصورتِ دیگر دندان شکن جواب پائیں گے۔ ان شاء اللہ

تنبیہ: اہلِ حدیث کے نزدیک قرآن و حدیث اوراجماع کے صریح مخالف ہر قول مردود ہے خواہ اسے بیان کرنے یا لکھنے والا کتنا ہی عظیم المرتبت کیوں نہ ہو۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے علمی مقالات للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 1 صفحہ 178 اور 179)