ایک صحیح العقیدہ یعنی اہل حدیث بادشاہ کا عظیم الشان قصہ

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


امیر المومنین خلیفہ ابو یوسف یعقوب بن یوسف بن عبدالمؤمن بن علی القیسی الکومی المراکشی الظاہری المغربی رحمہ اللہ (متوفی ۵۹۵ ہجری) نے اپنی سلطنت میں احکامِ شریعت نافذ کئے، جہاد کا جھنڈا بلند کیا، عدل و انصاف کے ساتھ حدود کا نفاذ کیا اور میزانِ عدل قائم کی۔

اُن کے بارے میں ابن خلکان مورخ نے لکھا ہے: وہ سخی بادشاہ تھے، شریعتِ مطہرہ پرعمل کرنے والے، بغیر کسی خوف اور جانبداری کے نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے تھے جیسا کہ مناسب ہے، لوگوں کو پانچ نمازیں پڑھاتے، اُونی لباس پہنتے، عورت ہو یا کمزور اُن کے لئے رُک کر اُن کا حق دلاتے تھے، آپ نے یہ وصیت فرمائی کہ مجھے راستے کے درمیان یعنی قریب دفن کیا جائے تاکہ وہاں سے گزرنے والے میرے لئے رحمت کی دعا کریں۔ (وفیات الاعیان ج۷ص ۱۰)

اس مجاہد اور صحیح العقیدہ خلیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں ابن خلکان نے مزید لکھا: اور انھوں نے فروعاتِ فقہ (مالکی فقہ کی کتابیں) چھوڑ دینے کا حکم دیا اور فرمایا: علماء صرف قرآن مجید اور سنتِ نبویہ (حدیث) کے مطابق ہی فتوے دیں اور مجتہدین متقدمین میں سے کسی کی تقلید نہ کریں بلکہ اپنے اجتہاد و استنباط کے مطابق قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس سے فیصلے کریں۔ (تاریخ ابن خلکان: وفیات الاعیان ج۷ص ۱۱)

بعینہ یہی منہج، مسلک اور دعوت اہلِ حدیث (اہلِ سنت) کی ہے۔ والحمد للہ

اہلِ حدیث کو کذب و افتراء کے ساتھ انگریزی دور کی پیداوار کہنے والے ذرا آنکھیں کھول کر چھٹی صدی کے اس تقلید نہ کرنے والے خلیفہ کے حالات پڑھیں تاکہ انھیں کچھ نظر آئے۔

اس مجاہد خلیفہ کے بارے میں حافظ ذہبی نے لکھا ہے کہ انھوں نے مقلد کے بارے میں کہا: قرآن اور سنن ابی داود (حدیث کی کتاب) پر عمل کرو یا پھر یہ تلوار حاضر ہے۔ (سیر اعلام النبلاء ۲۱/ ۳۱۴، ملخصاً)

حافظ ذہبی نے مزید فرمایا: اور اُن کے زمانے میں عبادت گزاروں اور صالحین کی شان بلند ہو گئی اور اسی طرح اہلِ حدیث کا مقام اُن کے ہاں بلند ہوا اور وہ اُن سے دعا کرواتے تھے، اُن کے زمانے میں علمِ فروع ختم ہو گیا (یعنی تقلیدی فقہ کا اختتام ہوا) اور (نام نہاد تقلیدی) فقہاء اُن سے ڈرنے لگے، انھوں نے احادیث کو علیحدہ کرنے کے بعد (تقلیدی) مذہب کی کتابوں کو جلانے کا حکم دیا لہٰذا پورے ملک میں مدوّنہ، کتاب ابن یونس (المالکی)، نوادر ابن ابی زید، تہذیب البرادعی اور ابن حبیب کی الواضحہ جیسی کتابیں جلا دی گئیں۔

محیی الدین عبدالواحد بن علی المراکشی نے اپنی کتاب المعجب (ص ۳۵۴) میں کہا: میں فاس (ایک شہر) میں تھا جب میں نے دیکھا، کتابوں کے بھار لائے جاتے پھر رکھ کر جلا دیئے جاتے تھے۔ (تاریخ الاسلام للذہبی ج۴۲ص ۲۱۶)

اے اللہ! اس مجاہد خلیفہ اور امیر المومنین کو جنت میں اعلیٰ مقام نصیب فرما اور ہمارے گناہ بخش کر اپنے فضل و کرم سے ایسے صحیح العقیدہ مجاہدین و مومنین کی مصاحبت عطا فرما۔ آمین

اصل تحریر کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث شمارہ 75 صفحہ 45 تا 47