اللہ کی معیت و قربت سے کیا مراد ہے؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

اہلِ حدیث اللہ کو عرش پر مانتے ہیں اور ’’معکم‘‘ اور’’اِنی قریب‘‘ سے متعلق کہتے ہیں کہ ’’معیت و قربت‘‘ سے مراد اللہ کا علم، قدرت، سماعت وبصارت ہے کیا یہ تاویل نہیں ہے؟ بعض سعودی علماء مثلاً شیخ (محمد بن) صالح العثیمین رحمہ اللہ وغیرہ اور بعض پاکستانی سلفی علماء کہتے ہیں کہ ہم ’’استوی‘‘ کو بلاکیف مانتے ہیں اسی طرح ’’معیت وقربت‘‘ کو بھی بلاکیف مانتے ہیں جس طرح اللہ کی شان کے لائق ہے وہ مستوی ہے اور جس طرح اس کی شان کے لائق ہے وہ ساتھ بھی ہے قریب بھی ہے۔ ہم کوئی تاویل نہیں کرتے۔ اللہ کی صفات والی آیات متشابہہ ہیں ہم ان میں سے کوئی غوروفکر و تاویل نہیں کرتے جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے ویسے ہی اس کی صفات ہیں۔

دلائل کے ساتھ وضاحت فرمائیں۔

الجواب:

مقاتل بن حیان (النبطی المفسر) نے وھو معھم کی تشریح میں فرمایا:

’’علمہ‘‘ اس کا علم ہے۔

(الاسماء والصفات للبیہقی ص 431 وفی نسخہ ص 542 وسندہ حسن)

ضحاک بن مزاحم المفسر نے فرمایا:

’’وعلمہ معھم‘‘ اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔

(السنۃ لعبد اللہ بن احمد: 592 وسندہ حسن واخطأ القحطانی فقال: فی اسنادہ لین!)

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (مفسر قرآن) سے مروی ہے:

’’ھو علی العرش وعلمہ معھم‘‘ وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔

(تفسیر ابن ابی حاتم بحوالہ شرح حدیث النزول لابن تیمیہ ص 126)

ان روایات کے راوی بکیر بن معروف (مفسر)حسن الحدیث تھے۔ امام نسائی اور جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے، ان پر احمد بن حنبل کی طرف منسوب جرح تہذیب الکمال للمزی میں بے سند ہونے کی وجہ سے ثابت نہیں ہے، جبکہ خود امام احمد سے ان کی توثیق ثابت ہے۔ (دیکھئے معرفۃ العلل والرجال:2503)

ابن المبارک کی طرف منسوب جرح عبد اللہ بن محمد بن سعدویہ اور احمد بن عبد اللہ بن بشیر المروزی کی وجہ سے ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی (ج1 ص 152، 153)

امام اہلِ سنت احمد بن حنبل نے ﴿ھو معھم أینما کانوا﴾ کی تشریح میں فرمایا:

’’علمہ‘‘ یعنی اس کا علم ہے۔

(شرح حدیث النزول ص 127، نقلہ عن کتاب السنۃ لحنبل بن اسحاق)

سلف صالحین میں سے ان کا کوئی مخالف نہیں ہے، حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا:

’’وقد ثبت عن السلف أنھم قالوا: ھو معھم بعلمہ وقد ذکر ابن عبد البر وغیرہ: أن ھذا اجماع من الصحابۃ والتابعین لھم بإحسان ولم یخالفھم فیہ أحد یعتد بقولہ‘‘

اور سلف سے ثابت ہے کہ انھوں نے فرمایا: وہ (اللہ) بلحاظِ علم ان کے ساتھ ہے اور ابن عبد البر وغیرہ نے اس پر صحابہ و تابعین کا اجماع نقل کیا ہے، اور اس سلسلے میں کسی قابل اعتماد شخص نے ان کی مخالفت نہیں کی۔

(شرح حدیث النزول ص 126)

یہ ظاہر ہے کہ اجماع شرعی حجت ہے۔ تفصیل کے لئے امام شافعی کی کتاب الرسالۃ اور حافظ ابن حزم کی الاحکام دیکھیں۔

حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری (1260ھ۔1337ھ)نے فرمایا:

’’واضح رہے کہ ہمارے مذہب کا اصل الا صول صرف اتباع کتاب وسنت ہے‘‘

(ابراء اہلِ حدیث والقرآن ص 32)

اس پر حافظ صاحب نے خود ہی بطور حاشیہ لکھا ہے کہ

’’اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہلِ حدیث کو اجماع وقیاس شرعی سے انکا رہے کیونکہ جب یہ دونوں کتاب وسنت سے ثابت ہیں تو کتاب و سنت کے ماننے میں ان کا ماننا آگیا ……الخ‘‘

(ابراء اہلِ حدیث والقرآن ص 32)

(نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 1 ص 4)

یاد رہے کہ ’’معکم‘‘ کا معنی ’’علمہ وقدرتہ‘‘ کرنا تاویل نہیں بلکہ اس کے لغوی معنوں میں سے ایک ہے جیسے کہا جاتا ہے: ’’اِذھب أنا معک‘‘ جاؤ میں تمھارے ساتھ ہوں۔

جو لوگ ’’معکم‘‘ کو علم و قدرت کے علاوہ کوئی علیحدہ صفت سمجھ بیٹھے ہیں ان کا قول اجماعِ صحابہ وتابعین ومن بعدھم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (ج 1 ص 31۔32)