فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کہنا حدیث سے ثابت ہے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

پچھلے کچھ عر صے سے انٹر نیٹ پر تشہیر کی جا رہی ہے کہ فجر کی اذان کے اضافی الفاظ: الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کیاہے؟ کیا یہ بات صحیح ہے اور کیا یہ الفاظ کسی حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں؟ (ایک سائل)

الجواب:

انٹر نیٹ پر مذکورہ تشہیر غلط، باطل اور افتراء ہے، کیونکہ یہ الفاظ صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ مثلاً:

1: سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اذان سکھائی اور اس روایت میں یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’الصلٰوۃ خیر من النوم، الصلٰوۃخیر من النوم ّ فی الأولی من الصبح‘‘ صبح کی پہلی (اذان) میں دو دفعہ الصلوٰۃ خیر من النوم کہو۔ (صحیح ابن خزیمہ:385، وسندہ حسن/ باب التثویب فی أذان الفجر)

اس حدیث کے راوی عثمان بن السائب صدوق حسن الحدیث ہیں۔ انھیں ابن خزیمہ اور ابن حبان دونوں نے ثقہ قرار دیا اور جس راوی کی تو ثیق ایک ثقہ غیر متساہل محدث یا دو محدثین سے ثابت ہو جائے تواسے مجہول یا غیر معروف کہنا غلط ہوتا ہے۔

عثمان کے والد السائب الجمحی المکی کو بھی ابن خزیمہ اور ابن حبان نے ثقہ قرار دیا، لہٰذا وہ بھی صدوق حسن الحدیث ہیں اور ام عبد الملک بن ابی محذورہ نے ان کی متابعت تامہ کر رکھی ہے، نیز باقی ساری سند صحیح ہے، لہٰذا یہ حدیث حسن لذاتہ ہے۔

2: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’من السنۃ إذا قال المؤذن في أذان الفجر حي علی الفلاح قال: الصلوٰۃ خیر من النوم، الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ سنت میں سے ہے کہ جب موذن اذانِ فجر میں حی علی الفلاح کہے تو الصلوٰۃ خیر من النوم دو دفعہ کہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: 1/ 423 وقال:’’وھوإسناد صحیح‘‘،صحیح ابن خزیمہ بتحقیقی:386 وسندہ صحیح)

صحابی جب سنت کا لفظ کہیں تو یہ مرفوع حدیث ہوتا ہے۔ (دیکھئے اختصار علوم الحدیث مترجم اردو ص 34 قسم: 8، اور کتبِ اصول الحدیث)

ان دونوں صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ صبح کی پہلی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم دو دفعہ کہنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔

تنبیہ: صبح کی دو اذانیں ہوتی ہیں: ایک صبح صادق کے بعد اذانِ فجر، دوسری اقامت۔

رسول اللہ ﷺ نے ’’بین کل أذانین‘‘ کی حدیث میں اقامت کو بھی اذان قرار دیا ہے۔ (حدیث کے لئے دیکھئے صحیح بخاری: 624، صحیح مسلم: 838[1940])

ان دونوں اذانوں (اذانِ فجر اور اقامت) میں سے صرف پہلی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ ثابت ہیں اور دوسری میں ثابت نہیں۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کو اس مسئلے میں بڑی عجیب غلطی لگی اور وہ رات (سحری یاتہجد) کی اذان کو صبح کی اذان سمجھ بیٹھے اور یہ دعویٰ کر دیا کہ اذانِ فجر میں الصلوٰۃ خیر من النوم نہیں پڑھنا چاہیے اور رات کی اذان میں یہ الفاظ پڑھنے چاہئیں، حالانکہ رات کی اذان کو صبح کی اذان کہنا غلط ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’إن بلالاً یؤذن بلیل‘‘بے شک بلال رات کو اذان دیتے ہیں۔ ( صحیح بخاری:622۔623باب الاذان قبل الفجر، صحیح مسلم:1092 [2536])

اس حدیث میں تہجد یا رمضان میں سحری کی اذان کے بارے میں یہ صراحت ہے کہ یہ رات کی اذان ہے، لہٰذا البانی رحمہ اللہ کا اسے فجر کی اذان قرار دینا بہت بڑی غلطی ہے اور اس غلطی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انھوں نے اس حد یث کا فہم سلف صا لحین سے نہیں لیا بلکہ یمن کے ایک بہت متاخر عالم سے لے لیا ہے۔ حافظ ابن خزیمہ، حافظ بیہقی اور علامہ طحاوی وغیرہم نے جو فقہ الحدیث پیش کیا، اُس سے آنکھیں بند کر کے خیر القرون اور زمانہ تدوینِ حدیث کے بعد کے متاخرین کا فہم قبول کر لینا ہرگز صحیح نہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے لکھا ہے: ’’وإن قول الشیخ البانی حفظہ اللہ (رحمہ اللہ) ضعیف في ھذہ المسئلۃ‘‘ اور اس مسئلے میں شیخ البانی حفظہ اللہ (رحمہ اللہ) کا قول ضعیف (کمزور)ہے۔ (فتاویٰ الدین الخالص ج 3 ص 225)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں جس روایت میں آیا ہے کہ انھوں نے الصلوٰۃ خیر من النوم کے بارے میں فرمایا: ان الفاظ کو صبح کی اذان میں شامل کرلو۔ (موطا امام مالک ج 1 ص 72 ح 151، مشکوٰۃ المصابیح بتحقیقی: 652) یہ روایت موطامیں بلاغات سے بے سند ہے اور بے سند روایت مردود ہوتی ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ (1/ 208 ح 21159) میں ایک روایت اس مفہوم کی مروی ہے جس کا راوی اسماعیل (؟؟) مجہول ہے۔

سنن دارقطنی میں ایک روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے موذن سے کہا تھا: جب تم فجر (کی اذان) میں حي علی الفلاح پر پہنچ جاؤ تو (اس کے بعد) دو دفعہ الصلاۃ خیر من النوم کہو۔ (1/ 243 ح 935)

اس روایت کی دو سند یں ہیں:

1: سفیان ثوری (مدلس) عن محمد بن عجلان (مدلس) عن نافع والی سند۔

یہ دو مدلسین کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔

2: عبداللہ بن عمر العمری عن نافع۔

یہ روایت عبداللہ بن عمر العمری عن نافع کی وجہ سے حسن ہے اور العمری مذکور کی نافع کے علاوہ دوسرے تمام راویوں سے تمام روایات ضعیف و مردود ہیں، کیونکہ جمہور محدثین نے انھیں ضعیف قرار دیا ہے۔

اس حسن روایت سے صرف یہ ثابت ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے موذن کو دین کا مسئلہ سکھانے کیلئے یہ حکم دیا تھا، نہ کہ انھو ں نے اذان میں کوئی اضافہ کر دیا تھا۔

اتنی سی بات کو ’’یا ر‘‘ لو گوں نے افسانہ بنا دیا ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 104 ص 14 تا 16)