اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کریں

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ للِزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ﴾

اور (مومنین) وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ (المومنون:4)

  1. اس آیتِ کریمہ میں مومن مسلمانوں کی تیسری نشانی یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔

  2. زکوٰۃ سے مراد ہے کہ ہرسال مال نصاب میں سے چالیسواں حصہ نکال کرسورۃ التوبہ (کی آیت:60) میں مذکورہ آٹھ حصوں میں سے کسی بھی حصے پر اسے خرچ کیاجائے۔

    سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

    اور کسی مال میں پورا سال گزرنے سے پہلے کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔

    (السنن الکبریٰ للبیہقی 104/4، وسندہ صحیح)

    اس بارے میں مرفوع روایات ضعیف ہیں (مثلاًدیکھئے انوار الصحیفہ:د1573) لیکن یہ صحیح اثر مرفوع حکماً ہے اوراجماع بھی اسی کامؤید ہے۔

    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

    ((وَأَدُّوْا زَکٰوۃَ أَمْوَالِکُمْ))

    اور اپنے اموال کی زکوٰۃ دو۔

    (سنن ترمذی:616وقال:’’حسن صحیح‘‘ وسندہ حسن وصححہ ابن حبان:795)

  3. حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے آیت مذکورہ میں ’’فاعلون‘‘ کامفہوم: مؤدون (اداکرنے والے) لکھا ہے۔ (دیکھئے زاد المسیر460/5)

    شیخ عبدالسلام الرستمی حفظہ اللہ نے فرمایا:

    اور زکوٰۃ سے مراد نفس پاک کرنے والے اعمال ہیں (یعنی تزکیۂ نفس) اورصدقات وزکوٰۃ سے مال پاک کرنے والے اعمال بھی اس میں داخل ہیں۔

    ابن کثیر (رحمہ اللہ)نے فرمایا:

    مال میں زکوٰۃ تو مکہ میں فرض ہوئی اوراس کا نصاب اور مقداریں (تفصیلی احکام) مدینے میں مقرر ہوئے۔

    (ترجمہ از پشتو تفسیر:احسن الکلام ج6ص175)

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 92 صفحہ 49 یعنی لاسٹ اِن ٹائٹل