اذان اور اقامت کے مسائل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


1- اذان کا عام مشہور طریقہ درج ذیل ہے:

اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ، أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ۔

ترجمہ: اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، نماز کی طرف آؤ، نماز کی طرف آؤ، فلاح کی طرف آؤ، فلاح کی طرف آؤ، اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔

(سنن ابی داود: 499 وسندہ حسن، و صححہ الترمذی: 189، وابن خزیمہ: 371، وابن حبان [الاحسان]: 1677)

2- مذکورہ بالا اذان کے بعد نماز کی اقامت (تکبیر) کے الفاظ درج ذیل ہیں:

اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ۔

(سنن ابی داود: 499 وسندہ حسن، و صححہ الترمذی: 189، وابن خزیمہ: 371، وابن حبان [الاحسان]: 1677)

قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ کا ترجمہ: ’’یقینا نماز کھڑی ہو گئی‘‘۔

3- اذان کا دوسرا طریقہ جو کہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے:

اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ، أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ، أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ۔

(سنن ابی داود:502 وسندہ صحیح)

اذانِ مذکورہ کے بعد اقامت کا طریقہ درج ذیل ہے:

اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ، أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ، حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللہُ أَکْبَرُ، لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ۔

(سنن ابی داود: 502 وسندہ صحیح)

4- فقرہ نمبر 1 میں بیان کردہ طریقۂ اذان کے ساتھ فقرہ نمبر 3 والی اقامت پڑھنے کا کوئی ثبوت کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے۔

تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب: انوارالسنن فی تحقیق آثار السنن۔

5- صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد فجر کی پہلی اذان میں حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے بعد درج ذیل الفاظ کہنے رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں:

اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ، اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ

ترجمہ: نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے۔

(صحیح ابن خزیمہ: 385 وسندہ حسن و حسنہ النووي في خلاصۃ الأحکام 1/ 286 ح 810، عثمان بن السائب الجمحي المکي و أبوہ صدوقان و ثقھما بن حبان و ابن خزیمۃ)

دورِ حاضر اور شر القرون کے بعض لوگوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’تثویب کے یہ الفاظِ مذکورہ رات کی اذان (!) میں ہیں، صبح کی اذان میں نہیں‘‘ جب کہ صحیح ابن خزیمہ کی اس حسن لذاتہ حدیث سے ان لوگوں کے دعوے کی جڑ کٹ جاتی ہے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

سنت یہ ہے کہ مؤذن جب فجر کی اذان میں حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ کہے تو اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ، اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ دو دفعہ کہے۔ الخ

(سنن الدار قطنی 1/ 243 ح 933 وسندہ صحیح وقال البیہقی 1/ 423: ’’وھو اسناد صحیح‘‘ ورواہ ابن خزیمہ فی صحیحہ: 386 مختصراً)

6- جب مؤذن اذان کہے تو اُس کا (آہستہ آواز میں) جواب دینا مسنون ہے۔

جس طرح موذن کہے آپ بھی اسی طرح کہیں سوائے حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ اور حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے، ان دو جگہ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ پڑھیں۔ دیکھئے صحیح مسلم (385)

تکبیر (اقامت، دوسری اذان) کا جواب دینا صراحتاً ثابت نہیں ہے۔

اگر کوئی شخص اذان پر قیاس کر کے اس کا جواب دیتا ہے تو اسی طرح جواب دے جس طرح وہ اذان کا جواب دیتا ہے۔

یاد رہے کہ اقامت کے جواب میں ’’أقامھا اللہ و أدامھا‘‘ کے الفاظ پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے سنن ابی داود (بتحقیقی: 528، وسندہ ضعیف)

7- اذان کے بعد درودِ ابراہیمی پڑھیں اور درج ذیل دعا مانگیں:

اَللّٰہُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلٰوۃِ الْقَائِمَۃِ، آتِ مُحَمَّدًا - الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہٗ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا - الَّذِيْ وَعَدْتَّہٗ۔

ترجمہ: اس مکمل دعوت اور قائم نماز کے رب! محمد (ﷺ) کو وسیلہ (جنت کا سب سے بہتر محل) اور فضیلت عطا فرما، تُو نے اُن کے ساتھ جس مقامِ محمود کا وعدہ کر رکھا ہے، عطا فرما۔

(صحیح بخاری: 614)

8- اگر اذان ہو چکی ہو تو دوبارہ اذان دینا ضروری نہیں ہے۔

ایک دفعہ (کسی عذر کی وجہ سے) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں نماز پڑھی تو آپ نے نہ اذان کا حکم دیا اور نہ اقامت کا۔ دیکھئے صحیح مسلم (534، دارالسلام: 1191)

یعنی بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سفر میں (عام نمازوں میں) صرف اقامت کہتے تھے۔ دیکھئے الموطأ (1/ 73 ح 155، وسند ہ صحیح، الاتحاف الباسم: 198)

اگر فتنے اور شدید اختلاف کا اندیشہ نہ ہو تو دوبارہ اذان بھی جائز ہے۔

……… اصل مضمون ………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 3 صفحہ 72 تا 74) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ