بے سند اقوال سے استدلال غلط ہے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


امام عبداللہ بن المبارک المروزی رحمہ اللہ (متوفی 181ھ) نے فرمایا:

’’الإسناد من الدین، ولو لا الإسناد لقال من شاء ما شاء‘‘

اسناد (سندیں) دین میں سے ہیں، اور اگر سندیں نہ ہوتیں تو جو شخص جو کچھ چاہتا کہتا۔

(مقدمہ صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام: 32 وسندہ صحیح)

حافظ ابو نصر عبید اللہ بن سعید بن حاتم الوائلی السجزی [حنفی] رحمہ اللہ (متوفی 444ھ) نے فرمایا:

’’فکل مدعٍ للسنۃ یجب أن یطالب بالنقل الصحیح بما یقولہ فإن أتی بذلک علم صدقہ و قبل قولہ ۔۔۔‘‘

پس ہر شخص جو سنت (ماننے) کا مدعی ہے، یہ ضروری ہے کہ وہ جو کہتا ہے اُس کے بارے میں اُس سے صحیح سند کا مطالبہ کیا جائے پھر وہ اگر یہ (صحیح سند) پیش کر دے تو اس کی سچائی معلوم ہو جاتی ہے اور اس کی بات قبول کی جاتی ہے۔۔۔

(رسالۃ السجزی الیٰ اھل زبید فی الرد علیٰ من انکر الحرف والصوت ص 146)

اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں:

1- ہر روایت اور ہر حوالے کے لئے صحیح و مقبول سند پیش کرنی چاہئے۔

2- بے سند روایت اور بے سند حوالہ مردود ہوتا ہے۔

ہم نے ماہنامہ الحدیث حضرو اور اپنی تازہ تصانیف میں یہ معیار قائم کیا ہے کہ ہر بات باحوالہ اور با سند ہوتی ہے۔ اگر روایت صحیح و مقبول ہو تو اُس سے استدلال کیا جاتا ہے، ورنہ اُسے رد کر دیا جاتا ہے۔ والحمدللہ

یہ وہ خاص منہج ہے جس میں دنیا کا کوئی انسان بھی ماہنامہ الحدیث کا مقابلہ نہیں کر سکتا، مثلاً زرولی خان دیوبندی نے ’’احسن المقال فی کراھیۃ صیام ستۃ شوال‘‘ نامی مضمون میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ شوال کے چھ روزوں کے بارے میں ’’حضرت ابو حنیفہ ؒ سے بھی معتبر فتاویٰ اور کتب مذھب میں کراھت منقول ہے۔۔۔‘‘ (احسن المقال ص 24، نیز دیکھئے ص 34۔ 36)

اس کے جواب میں راقم الحروف نے لکھا تھا: ’’شوال کے چھ روزوں کو مکروہ یا ممنوع سمجھنا امام ابوحنیفہ سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔ زرولی دیوبندی نے فقہ کی کتابوں سے جو کچھ نقل کیا ہے وہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔‘‘ (ماہنامہ الحدیث: 51ص 42)

ایک دیوبندی نے ’’تصحیح الاقوال فی رد صحیح الاقوال‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا: (ماہنامہ الاحسن صفر 1430ھ ص 22 تا 33)مگر الحادی وغیرہ گالیوں کے علاوہ امام ابوحنیفہ سے ایک صحیح سند بھی پیش نہیں کی، جس سے شوال کے چھ روزوں کا مکروہ یا ممنوع ہونا ثابت ہوتا ہو۔ اتنی عظیم شکست کے بعد یہ لوگ اہلِ حدیث کو گالیاں نہ دیں تو کیا کریں؟!

سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے:

’’اور امام بخاریؒ نے اپنے استدلال میں ان کے اثر کی کوئی سند نقل نہیں کی اور بے سند بات حجت نہیں ہو سکتی۔‘‘

(احسن الکلام ج1ص 327، دوسرانسخہ ص 403)

جب امام بخاری کی بیان کردہ بے سند بات حجت نہیں ہو سکتی تو کتبِ فقہ کے بے سند اقوال کس طرح حجت ہو سکتے ہیں؟!

تصحیح الاقوال نام رکھنے سے بے سند اقوال کبھی حجت نہیں ہو سکتے۔

ایک اور شخص نے قربانی کے چار دن ثابت کرنے کے لئے علامہ نووی، حافظ ابن القیم اور شوکانی کے بے سند حوالے پیش کر کے یہ منوانے کی کوشش کی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ قربانی کے چار دنوں کے قائل تھے۔ یہ ظاہر ہے کہ بے سند اقوال تو مردود ہوتے ہیں لہٰذا وہ اپنے اس مضمون میں سخت ناکام رہے۔

ہماری طرف سے عام اعلان ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارے منہج کو مد نظر رکھ کر دلیل سے جواب دے تو ہم اس جواب کو تسلیم کریں گے اور علانیہ رجوع کریں گے۔ رہے بے سند اقوال اور حوالے یا کتاب و سنت و اجماع اور جمہور سلف صالحین کے خلاف ’’تحقیقات‘‘ یا ’’تدقیقات‘‘ تو انھیں کون سنتا ہے اور علمی میدان میں ان کی وقعت ہی کیا ہے؟!

امام شافعی نے فرمایا:

جو شخص حجت (دلیل اور سند) کے بغیر علم طلب کرتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے رات میں لکڑیاں اکٹھی کرنے والا، جو لکڑیاں اٹھا کر لے جا رہا ہے جن میں زہریلا سانپ ہے، جو اسے ڈس لے گا اور اسے پتا بھی نہیں ہو گا۔

(المدخل الیٰ کتاب الاکلیل للحاکم ص 28 وسندہ صحیح)

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 3 صفحہ 215) اور ماہنامہ الحدیث (شمارہ 69 صفحہ 2)