چند فقہی اصطلاحات کا تعارف

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


نمبر 1:

ہر خاص دلیل ہر عام دلیل پر مقدم ہوتی ہے، بشرطیکہ (دونوں دلیلیں باسند صحیح یا حسن ثابت ہوں) مثلاً قرآن مجید میں ہے: ((حرمت علیکم المیتۃ)) تم پر مردار حرام ہے۔ (المائدہ:۳)

جبکہ صحیح حدیث میں ہے کہ ((والحل میتتہ)) اور سمندر کا مردار حلال ہے۔ (موطأ امام مالک: ۱/ ۲۲ ح ۴۰، جامع الترمذی ۱/ ۲۱ ح ۶۹، امام ترمذی نے کہا: ’’ھٰذا حدیث حسن صحیح‘‘)

اسے درج ذیل محدثین نے بھی بلحاظ سند صحیح قرار دیا ہے:

  1. ابن خزیمہ
  2. ابن حبان
  3. بخاری
  4. ابن المنذر
  5. البغوی

رحمہم اللہ (دیکھئے التلخیص الحبیر ج ۱ ص ۹، ۱۰)

ابن الحاجب النحوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’تخصیص العام جائز عند الأکثرین‘‘ عام کی تخصیص کرنا اکثر (علماء)کے نزدیک جائز ہے۔ (منتہی الوصول وا لامل فی علمی الاصول والجدل ص ۱۱۹)

بلکہ غزالی (متوفی ۵۰۵ہجری) فرماتے ہیں: ’’لا یعرف خلافًا بین القائلین بالعموم في جواز تخصیصہ بالدلیل‘‘ ہمیں عموم کے دعویداروں کے درمیان اس بات پر اختلاف معلوم نہیں کہ اس کی تخصیص دلیل کے ساتھ جائز ہے۔ (المستصفٰی من علم الاصول ج ۲ ص ۹۸)

شوکانی (متوفی ۱۲۵۵ہجری) لکھتے ہیں کہ ’’إن التخصیص للعمومات جائز ….‘‘ کہ عمومات کی تخصیص جائزہے۔ (ارشاد الفحول الی تحقیق الحق من علم الاصول ص ۱۴۳)

نمبر 2:

قرآنِ مجید اور احادیث کے عموم کی تخصیص قرآنِ مجید اور احادیث صحیحہ کے ساتھ نہ صرف جائز بلکہ بالکل صحیح اور حق ہے۔

علی بن محمد الآمدی (متوفی ۶۳۱ ہجری) لکھتے ہیں: ’’یجوز تخصیص عموم القرآن بالسنۃ‘‘ اور قرآن کے عموم کی تخصیص سنت کے ساتھ جائز ہے۔ (الاحکام فی اصول الاحکام ج ۲ ص ۳۴۷)

بلکہ مزید لکھتے ہیں: ’’وأما إذا کانت السنۃ من أخبار الآحاد فمذہب الأئمۃ الأربعۃ جوازہ‘‘ اگر عموم قرآن کی تخصیص کرنے والی سنت خبر واحد ہو تو ائمہ اربعہ (مالک، ابو حنیفہ، شافعی، اور احمد رحمہم اللہ) کا مذہب (تحقیق) یہ ہے کہ جائز ہے۔ (حوالہ مذکورہ)

نمبر 3:

اگر کسی دلیل (مثلاً الف) میں کسی بات کا ذکر نہیں ہے تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اس بات کا وجود ہی نہیں ہے، بشرطیکہ دوسری دلیل (مثلاً ب) میں اس کا ذکر ہو۔

حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں: ’’ولا یلزم من عدم ذکر الشيء عدم وقوعہ‘‘ کسی چیز کے عدم ذکر سے اس کا واقع نہ ہونا لازم نہیں ہے۔ (الدرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ ج ۱ ص ۲۲۵ باب الاستسقاء)

نمبر 4:

ثقہ راویوں کی گواہی (روایت) ماننا عین قرآن مجید پر عمل ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدآءِ﴾ وہ گواہ جن کی گواہی تمھارے درمیان مقبول ہو۔ (البقرۃ:۲۸۲)

قاتل کو سزائے موت، چور کا دایاں ہاتھ کلائی سے کاٹنا، شادی شدہ زانی کو سنگسار، اور غیر شادی شدہ کو کوڑے اور جلا وطنی وغیرہ اموربھی گواہوں کی گواہی پر ہی معرضِ عمل میں آتے ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر جو کہ ثقہ و عادل اشخاص کی گواہیوں (روایات) پر عمل کرتے ہیں ’’روایت پرستی‘‘ کا گھناؤنا الزام لگانا انتہائی غلط اور باطل ہے۔

نمبر 5:

ہر منطوق ہر مفہوم پر اور ہر مفصل و صریح و واضح ہر مبہم پر ہمیشہ مقدم ہوتا ہے۔

امام الائمہ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’والمفسر یقضی علی المبھم‘‘ اور مفسر مبہم پر فیصلہ کن ہوتا ہے۔ (صحیح البخاری ۱/ ۲۰۱ ح ۱۴۸۳، نیز دیکھئے فتح الباری ۱۰/ ۲۸۳)

تفصیل کے لئے دیکھئے مقالات جلد 1 مضمون ’’اندھیرے اور مشعل راہ‘‘ اور ماہنامہ الحدیث شمارہ 2 صفحہ 10 تا 12