عید کے بعض مسائل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال: عیدین اور جنازہ کی نماز میں ہر تکبیر پر رفع یدین کر کے ہاتھ باندھنا صحیح ہے؟ یا صرف تکبیر اولیٰ ہی پر رفع یدین کر کے ہاتھ باندھنا چاہیے؟

الجواب:

تکبیراتِ عیدین میں ہاتھ باندھنا ہی راجح ہے، حالتِ قیام قبل از رکوع میں ہاتھ باندھنے پر اتفاق ہے۔

مولانا محمد قاسم خواجہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’بعض لوگ تکبیرات عید کے درمیان ہاتھ کھلے چھوڑ دیتے ہیں، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ حالانکہ یہ حالتِ قیام ہے، اس لئے بارگاہ ایزدی میں دست بستہ ہی کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘

(حی علی الصلاۃ ص 153۔ 154)

سوال: عیدین کی نماز سے پہلے جو تکبیریں کہی جاتی ہیں تو یہاں ہوتا یہ ہے کہ ایک شخص پہلے بلند آواز سے مائیک میں تکبیر کہتا ہے، پھر حاضرین جواباً مجموعی طور پر تکبیر کہتے ہیں، کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

الجواب: میرے علم میں یہ عمل ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم

سوال: عیدین میں خطبہ کے بعد امام اور جماعت کا ہاتھ اُٹھا کر مجموعی طور پر دُعا مانگنا صحیح ہے؟

الجواب: یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور دعا مانگنا ثابت ہے لیکن اس موقع پر مقتدیوں کا امام کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ثابت نہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا نہ کی جائے۔ واللہ اعلم

سوال: عیدین میں خطبۂ عید کے بعد عید مبارک کی ملاقات کرنا اور بغل گیر ہونے کا جو دستور ہے، شرعاً کیسا ہے؟

الجواب: بغل گیر ہونے کا کوئی ثبوت میرے علم میں نہیں ہے، البتہ تقبل اللہ منا و منک والی دعا صحابہ کرام سے منقول ہے۔ (دیکھئے فتاویٰ علمیہ 132/2، 133)

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 121 صفحہ 13

-----------------------------

عیدہ گاہ کو جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیریں کہنا ثابت ہیں۔ (السنن الکبری للبیہقی 3/ 279وسندہ حسن)

تکبیرات کے الفاظ کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہیں، البتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے ثابت ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید کے دن صبح سویرے ہی مسجد سے عیدگاہ کی طرف جاتے تھے اور عیدگاہ تک آپ اونچی تکبیریں کہتے تھے۔ آپ اس وقت تک تکبیریں کہتے رہتے تھے جب تک امام (نماز پڑھانے کے لئے) نہ آ جاتا۔ (السنن الکبری للبیہقی: 3/ 279 وسندہ حسن)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے تکبیر کے یہ الفاظ ثابت ہیں: اللہ أکبرکبیراً، اللہ أکبرکبیراً، اللہ أکبر وأجل اللہ أکبر وللہ الحمد۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 168 ح 5654 وسندہ صحیح)

سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ان الفاظ میں تکبیر سکھاتے تھے: ’’اللہ أکبر، اللہ أکبر، اللھم أنت أعلی وأجل من أن تکون لک صاحبۃ أو یکون لک ولد أو یکون لک شریک فی الملک أویکون لک ولي من الذل وکبرہ تکبیراً اللہ أکبر تکبیراً (کبیراً)اللھم اغفرلنا اللھم ارحمنا‘‘ (مصنف عبدالرزاق: 11/ 295 ح 20581وسندہ صحیح) امام عبدالرزاق نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔ دیکھئے السنن الکبری للبیہقی(3/ 316)

تابعی صغیر ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: کانوا یکبرون یوم عرفۃ وأحدھم مستقبل القبلۃ فی الصلوۃ: اللہ أکبر، اللہ أکبرلا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر اللہ أکبر وللہ الحمد (مصنف ابن ابی شیبہ: 2/ 167 ح 5649 وسندہ صحیح)

اسلاف سے ثابت شدہ مذکورہ الفاظ میں سے جو بھی چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 17 صفحہ 17

-----------------------------

نمازِ عید کے بعد تقبل اللہ منا و منک کہنا؟

اس بارے میں بعض آثار کی تحقیق درج ذیل ہے:

طحاوی نے کہا: ’’وحدثنا یحي بن عثمان قال: حدثنا نعیم قال: حدثنا محمد ابن حرب عن محمد بن زیاد الألہانی قال: کنا نأتي أبا أمامۃ وواثلۃ بن الأسقع فی الفطر والأضحی ونقول لھما: تقبل اللہ منا ومنکم فیقولان: ومنکم و منکم‘‘ محمد بن زیاد الالہانی (ابو سفیان الحمصی: ثقہ) سے روایت ہے کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی میں ابو امامہ اور واثلہ بن اسقع ( رضی اللہ عنہما ) کے پاس جاتے تو کہتے: ’’تقبل اللہ منا و منکم‘‘ اللہ ہمارے اور تمھارے (اعمال) قبول فرمائے، پھر وہ دونوں جواب دیتے: اور تمھارے بھی، اور تمھارے بھی۔ (مختصر اختلاف الفقہاء للطحاوی / اختصار الجصاص 4/ 385 وسندہ حسن)

اس سند میں یحییٰ بن عثمان بن صالح اور نعیم بن حماد دونوں جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے اور باقی سند صحیح ہے۔

اس روایت کو ابن الترکمانی نے بغیر کسی حوالے کے نقل کر کے ’’حدیث جید‘‘ کہا اور احمد بن حنبل سے اس کی سند کا جید ہونا نقل کیا۔ دیکھئے الجوہر النقی (3/ 319۔ 320)

قاضی حسین بن اسماعیل المحاملی نے کہا: ’’حدثنا المھنی بن یحي قال: حدثنا مبشر بن إسماعیل الحلبی عن إسماعیل بن عیاش عن صفوان بن عمرو عن عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر عن أبیہ قال: کان أصحاب النبي ﷺ إذا التقوا یوم العید یقول بعضھم لبعض: تقبل اللہ منا و منک‘‘ جبیر بن نفیر (رحمہ اللہ / تابعی) سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ کے صحابہ عید کے دن ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا و منک کہتے تھے۔ (الجزء الثانی من کتاب صلوٰۃ العیدین مخطوط مصور ص 22ب وسندہ حسن)

اس روایت کی سند حسن ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔ دیکھئے فتح الباری (2/ 446 تحت ح 952)

صفوان بن عمرو السکسکی (ثقہ) سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن بسر المازنی (رضی اللہ عنہ) خالد بن معدان (رحمہ اللہ) راشد بن سعد (رحمہ اللہ) عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر (رحمہ اللہ) اور عبدالرحمٰن بن عائذ (رحمہ اللہ) وغیرہم شیوخ کو دیکھا وہ عید میں ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا و منک کہتے تھے۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر 26/ 106، ترجمہ: صفوان بن عمرو، وسندہ حسن)

علی بن ثابت الجزری رحمہ اللہ (صدوق حسن الحدیث) نے کہا: میں نے (امام) مالک بن انس (رحمہ اللہ) سے عید کے دن لوگوں کے تقبل اللہ منا و منک کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: ہمارے ہاں (مدینے میں) اسی پر عمل جاری ہے، ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ (کتاب الثقات لابن حبان ج 9 ص 90 وسندہ حسن)

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 68 صفحہ 13 تا 16

-----------------------------

عیدین کی نمازمیں تکبیرات زوائد پر رفع یدین کرنا بالکل صحیح ہے، کیونکہ نبی ﷺ رکوع سے پہلے ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔ [ابوداود ح 722، مسند احمد 2/ 133، 134 ح 6175، منتقی ابن الجارود ص 69 ح 178]

اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے، بعض لوگوں کا عصرِ حاضر میں اس حدیث پر جرح کرنا مردود ہے۔ امام بیہقی اور امام ابن المنذر نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ تکبیرات ِ عیدین میں بھی رفع یدین کرنا چاہئے۔ دیکھئے التلخیص الحبیر(ج 1 ص 86 ح 692) والسنن الکبریٰ للبیہقی (3/ 292، 293) والاوسط لابن المنذر (4/ 282)

عید الفطر والی تکبیرات کے بارے میں عطاء بن ابی رباح (تابعی) فرماتے ہیں: ’’نعم ویرفع الناس أیضًا‘‘ جی ہاں! ان تکبیرات میں رفع یدین کرنا چاہئے، اور (تمام) لوگوں کو بھی رفع یدین کرنا چاہئے۔ [مصنف عبدالرزاق 3/ 296 ح 5699، وسندہ صحیح]

امام اہلِ الشام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’نعم ارفع یدیک مع کلھن‘‘ جی ہاں، ان ساری تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرو۔ [احکام العیدین للفریابی ح 136، وسندہ صحیح]

امام دارالہجرۃ مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’نعم، إرفع یدیک مع کل تکبیرۃ ولم أسمع فیہ شیئًا‘‘ جی ہاں، ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرو اور میں نے اس (کے خلاف) کوئی چیز نہیں سنی۔ [احکام العیدین ح 137، وسندہ صحیح]

اس صحیح قول کے خلاف مالکیوں کی غیر مستند کتاب ’’مدونہ‘‘میں ایک بے سند قول مذکور ہے (ج 1 ص 155) یہ بے سند حوالہ مردود ہے، ’’مدونہ‘‘کے رد کے لئے دیکھئے میری کتاب القول المتین فی الجہر بالتأمین (ص 73) اسی طرح علامہ نووی کا حوالہ بھی بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ [دیکھئے المجموع شرح المہذب ج 5 ص 26]

امام اہلِ مکہ شافعی رحمہ اللہ بھی تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین کے قائل تھے۔ [دیکھئے کتاب الأم ج 1 ص 237]

امام اہلِ سنت احمد بن حنبل فرماتے ہیں: ’’یرفع یدیہ في کل تکبیرۃ‘‘ (عیدین کی) ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرنا چاہئے۔ [مسائل احمد روایۃ ابی داود ص 60 باب التکبیر فی صلوٰۃ العید]

ان تمام آثار سلف کے مقابلے میں محمد بن الحسن الشیبانی نے لکھا ہے: ’’ولا یرفع یدیہ‘‘ اور (عیدین کی تکبیرات میں) رفع یدین نہ کیا جائے۔ [کتاب الاصل ج 1 ص 374، 375 والاوسط لابن المنذر ج 4 ص 282]

یہ قول دو وجہ سے مردود ہے:

  1. محمد بن الحسن الشیبانی سخت مجروح ہے۔

    [دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی ج 4 ص 52، وسندہ صحیح، و جزء رفع الیدین للبخاری بتحقیقی ص 32]

    اس کی توثیق کسی معتبر محدث سے، صراحتاً باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔ میں نے اس موضوع پر ایک رسالہ ’’النصر الربانی‘‘ لکھا ہے جس میں ثابت کیا ہے کہ شیبانی مذکور سخت مجروح ہے۔

  2. محمد بن حسن شیبانی کا قول سلف صالحین کے اجماع و اتفاق کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی مردود ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں تحقیقی مقالات جلد 1 صفحہ 47

-----------------------------

تکبیر ات عیدین

نبی ﷺ نے فرمایا: ((التکبیر في الفطر سبع فی الأ و لٰی وخمس فی الآخرۃ والقراءۃ بعد ہما کلتیھما)) عید الفطر کے دن پہلی رکعت میں سات اوردوسری میں پانچ تکبیریں ہیں اور دونوں رکعتوں میں قراءت ان تکبیروں کے بعد ہے۔ [ابو داود 1 / 170 ح 1151]

اس حدیث کے بارے میں امام بخاری نے کہا: ’’ھوصحیح‘‘ (العلل الکبیر للترمذی ج1 ص 288) اسے امام احمد بن حنبل اور امام علی بن المدینی نے بھی صحیح کہا ہے۔ (التلخیص الحبیر 2 /84) عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے حجت ہونے پر میں نے مسند الحمیدی کی تخریج میں تفصیلی بحث لکھی ہے۔ اس روایت کے دیگر شواہد کے لیے ارواء الغلیل (3/ 106 تا 113) وغیرہ دیکھیں۔

نافع فرماتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے عید الاضحی اور عید الفطر کی نماز پڑھی۔ انھوں نے پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں اوردوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ (موطأ امام مالک 1/ 180 ح 435)

اس کی سند بالکل صحیح اوربخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔

شعیب بن ابی حمزہ عن نافع کی روایت میں ہے: ’’وھي السنۃ‘‘ اور یہ سنت ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج 3 ص288)

امام مالک فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں یعنی مدینہ میں اسی پر عمل ہے۔ (موطأ: 1/ 180)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی عیدین کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اوردوسری میں پانچ تکبیریں کہتے تھے۔ [شرح معانی الآثار للطحاوی 4/ 345]

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرا ء ت سے پہلے پانچ تکبیریں کہتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج2 ص 173 ح5701)

ابن جریج کے سماع کی تصریح احکام العیدین للفریابی (ص 176ح128) میں موجود ہے، اس کے دیگر صحیح شواہد کے لیے ارواء الغلیل(ج 3 ص111) وغیرہ کا مطالعہ کریں۔

امیرالمومنین سیدنا عمر بن عبدالعزیز بھی پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات اور دوسری میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہتے تھے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ ج2 ص 176ح، احکام العیدین ص 171، 172ح 117]

اس کی سند صحیح ہے۔ (سواطع القمرین ص 172) باب رفع یدین (14) کے تحت یہ باسند حسن گزر چکا ہے کہ جو شخص رفع یدین کرتا ہے اسے ہر انگلی کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے۔ (ابوداود 1 / 111 ح 722، مسند احمد 2 / 134 ح 6175)

اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ (ارواء الغلیل ج 3 ص113)

امام ابن المنذر اور امام بیہقی نے تکبیر ات عیدین میں رفع یدین کے مسئلے پر اس حدیث سے حجت پکڑی ہے۔ (التلخیص الحبیرج2 ص 86)

اور یہ استدلال صحیح ہے کیونکہ عموم سے استدلال کرنا بالاتفاق صحیح ہے۔ جو شخص رفع یدین کا منکر ہے وہ اس عام دلیل کے مقابلے میں خاص دلیل پیش کرے۔ یاد رہے کہ تکبیرات عیدین میں عدم رفع یدین والی ایک دلیل بھی پورے ذخیرۂ حدیث میں نہیں ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں تحقیقی مقالات جلد 1 صفحہ 55

-----------------------------

نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے (سیدنا) ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے عید الاضحی اور عید الفطر کی نماز پڑھی، آپ نے پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہیں۔ (موطأ امام مالک 1/ 180 ح 435 وسندہ صحیح)

آپ یہ ساری تکبیریں قراءت سے پہلے کہا کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 173/2 ح 5702 وسندہ صحیح)

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی بارہ تکبیریں ثابت ہیں۔ (احکام العیدین للفریابی: 128، وسندہ صحیح)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عیدین میں تکبیر سات اور پانچ ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 175 ح 5720 وسندہ حسن)

امام مکحول رحمہ اللہ (تابعی) نے فرمایا: عید الاضحی اور عبد الفطر میں تکبیر قراءت سے پہلے سات اور (دوسری رکعت میں) پانچ ہے۔ (ابن ابی شیبہ 2/ 175 ح 5714 ملخصاً وسندہ صحیح)

ابو الغصن ثابت بن قیس الغفاری المکی نے فرمایا: میں نے عمر بن عبد العزیز (رحمہ اللہ) کے پیچھے عید الفطر کی نماز پڑھی تو انھوں نے پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں پڑھیں۔ (ابن ابی شیبہ 2/ 176 ح 5732 وسندہ حسن وھو صحیح بالشواہد)

امام ابن شہاب الزہری نے فرمایا: سنت یہ ہے کہ عید الاضحی اور عید الفطر میں پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ (احکام العیدین للفریابی: 106، وسندہ حسن لذاتہ وھو صحیح بالشواہد)

امام مالک کا بھی یہی مذہب ہے۔ (دیکھئے احکام العیدین: 131، وسندہ صحیح)

امام مالک اور امام اوزاعی دونوں نے فرمایا کہ ان تکبیروں کے ساتھ رفع یدین بھی کرنا چاہیے۔ (احکام العیدین: 136۔ 137، والسندان صحیحان)

اصل مضمون کے لئے دیکھیں تحقیقی مقالات جلد 6 صفحہ 24

-----------------------------

عید کی نماز عید گاہ (یا کھلے میدان) میں پڑھنا سنت ہے

نمازِ عید، عیدگاہ (یا کھلے میدان) میں پڑھناسنت ہے۔

صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نمازِعید پڑھنے کے لئے عیدگاہ جاتے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے آثار کے لئے مصنف ابن ابی شیبہ اور احکام العیدین للفریابی وغیرہما کامطالعہ کیجئے۔

سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَخْرُجُ یَوْمَ الفِطْرِ وَالْأَضْحَی إِلَی الْمُصَلَّی، فَأَوَّلُ شَيْءٍ یَبْدَأُ بِہِ الصَّلَاۃُ، ثُمَّ یَنْصَرِفُ فَیَقُوْمُ مُقَابِلَ النَّاس)) إلخ رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن (شہر سے باہر) عید گاہ تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ ﷺ نماز پڑھاتے، نماز سے فارغ ہو کر آپ لوگوں کے سامنے(خطبہ کے لیے) کھڑے ہوتے۔ إلخ (صحیح بخاری:956، صحیح مسلم:889وترقیم دارالسلام:2053)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ((أَنَّ رَسُوْلَ اللہ ﷺِ ﷺ خَرَجَ یَوْمَ أَضْحٰی أَوْ فِطْرٍ، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ لَمْ یُصَلِّ قَبْلَھَا وَلاَ بَعْدَھَا)) رسول اللہ ﷺ عیدالاضحی یا عید الفطر کے دن (عید گاہ) گئے، پھر انھوں نے(نماز عید کی) دو رکعتیں پڑھیں، نہ اس سے پہلے اور نہ بعد میں نماز پڑھی۔ إلخ (صحیح مسلم:884وترقیم دارالسلام:2057)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مسجد سے تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ کی طرف جاتے اور تکبیر کہتے رہتے حتٰی کہ امام آجاتا۔ (سنن الدارقطنی2/ 43 ح 1696، وسندہ حسن، محمد بن عجلان صرح بالسماع عند البیہقی فی السنن الکبریٰ3/ 279 و صححہ الالبانی فی ارواء الغلیل3/ 122)

یزید بن خمیر الرحبی (تابعی)رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن بُسر رضی اللہ عنہ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن (عید گاہ کی طرف) گئے تو انھوں نے امام کا(نماز میں) تاخیر کر دینے کو ناپسند کیا۔ (سنن ابی داود:1135، سنن ابن ماجہ:1317 وسندہ صحیح وصححہ الحاکم علی شرط البخاری1/ 295ووافقہ الذہبی)

صفوان بن عمرو السکسکی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ (عید کے)خطبے اور نماز کے لیے (عیدگاہ) جانے میں جلدی کرتے تھے۔ (احکام العیدین للفریابی ص 109 ح 37 وسندہ صحیح)

امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگ عید کے دن تکبیر کہتے ہوئے اپنے گھروں سے عیدگاہ جاتے اورجب امام آجاتا تو خاموش ہو جاتے، جب امام (نماز کے لئے)تکبیر کہتا تو وہ بھی تکبیر کہتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ2/ 164 ح 1135، احکام العیدین للفریابی ص 117 ح 59 وسندہ صحیح)

عورتوں کا عید گاہ جانا

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدالفطر اور عیدالاضحی میں عورتوں کو (عیدگاہ) لے کر جائیں۔ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نے کہا: اگر ہم میں سے کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو (تو وہ کیا کرے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اس کی بہن اپنی چادر اوڑھا دے۔ (صحیح مسلم:890 وترقیم دارالسلام:2056)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گھر (بیوی وغیرھا) میں سے جو طاقت رکھتے انھیں (عید گاہ) لے جاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ2/ 182 ح 5786 و فی نسخہ3/ 43 و سندہ صحیح)

یاد رہے کہ عیدگاہ میں منبر لے کر نہیں جانا چاہئے۔ دیکھئے صحیح بخاری (946)

آج کے زمانے میں بعض لوگ حالات کی وجہ سے عورتوں کو مساجد اور عیدگاہ جانے سے روکتے ہیں، اور اپنی دلیل ’’ناسازگار‘‘ حالات کو بناتے ہیں۔ حالانکہ صحیح حدیث کے بعد اس عذر کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی۔

مجاہد تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کسی شخص کو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی وغیرھا) کو مسجد میں جانے سے منع نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ آپ کے بیٹے نے کہا: ہم تو انھیں منع کریں گے۔ یہ سن کر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (غصے سے) فرمایا: میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تُو یہ کہہ رہا ہے؟ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمربن الخطاب رضی اللہ عنہما نے اپنے اس بیٹے سے مرتے دم تک کلام نہیں کیا۔ (مسند احمد 2/ 36 ح 4933 وسندہ صحیح بحوالہ ماہنامہ’’الحدیث حضرو‘‘رقم 5 ص28)

خلاصہ یہ ہے کہ عیدکی نماز مسجد سے باہر عید گاہ یا کھلے میدان میں پڑھنا سنت ہے۔ یاد رہے کہ شرعی عذر کے بغیر مسجد میں عید کی نماز پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اگر بارش ہوتو پھر مسجد میں عید کی نماز پڑھنا جائز ہے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد سے ثابت ہے۔ دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی (3/ 130، وسندہ قوی، نیل المقصود:1160)

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 67 صفحہ 8 تا 10

-----------------------------

بعض یہ سمجھتے ہیں کہ دو عیدوں کے درمیان شادی کرنا غلط ہے۔ ان وہمی لوگوں کی یہ ساری باتیں فضول ہیں اور قرآن و حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’تزوّجني رسول اللہ ﷺ في شوال و بنی بي في شوال۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے شوال (کے مہینے) میں مجھ سے شادی کی اور شوال میں ہی میری رخصتی ہوئی۔ (صحیح مسلم: 1423، النسائی 6/ 70 ح 3238 وسندہ صحیح)

شوال کا مہینہ عید الفطر اور عید الاضحی کے درمیان ہے لہٰذا دو عیدوں کے درمیان شادی نکاح نہ کرنے کا تصور اس صحیح حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں تحقیقی مقالات جلد 2 صفحہ 48