عیدین میں 12 تکبیریں اور رفع یدین

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) نافع (رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ میں نے عید الاضحی اور عیدالفطر (کی نماز) ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ (یعنی آپ کے پیچھے) پڑھی تو آپ نے پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔

امام مالک نے فرمایا: ہمارے ہاں (مدینہ میں) اسی پر عمل ہے۔

(موطأ امام مالک، روایۃ یحییٰ بن یحییٰ 1/ 180ح 435 وسندہ صحیح، روایۃ ابی مصعب الزہری 1/ 230 ح 590)

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔

امام بیہقی نے فرمایا: اور ابو ہریرہ کی موقوف روایت صحیح ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ (الخلافیات قلمی ص 53 ب، مختصر الخلافیات لابن فرح ج 2 ص 220)

ایک روایت میں ہے کہ نافع نے کہا: میں نے لوگوں کو اسی پر پایا ہے۔ (الخلافیات قلمی، ص 55 ا وسندہ حسن، عبداللہ العمری عن نافع: حسن الحدیث و ضعیف عن غیرہ)

ایک روایت میں ہے کہ اور یہ سنت ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 3/ 288 وسندہ صحیح)

فائدہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نماز (مطلقاً) پڑھ کر فرماتے تھے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ ہوں، یہی آپ کی نماز تھی حتیٰ کہ آپ دنیا سے چلے گئے۔ (صحیح بخاری: 803)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز کا ہر مسئلہ مرفوع حکماً ہے اور یہی نماز نبی کریم ﷺ کی آخری نماز تھی لہٰذا اس کے مقابلے میں ہر روایت منسوخ ہے۔

امام محمد بن سیرین (مشہور ثقہ تابعی) نے فرمایا:

’’کل حدیث أبي ھریرۃ عن النبي ﷺ‘‘ إلخ

ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی ہر حدیث نبی ﷺ سے ہے۔

(شرح معانی الآثار 1/ 20 وسندہ حسن)

اس قول کا تعلق سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز والی تمام روایات سے ہے جیسا کہ صحیح بخاری (803) کی مذکورہ حدیث سے ظاہر ہے۔

خلاصۃ التحقیق: بارہ تکبیروں والی حدیث بالکل صحیح ہے اور مرفوع حکماً ہے اور اس کے مقابلے میں ہر روایت (چاہے طحاوی کی معانی الآثار کی چھ تکبیروں والی روایت ہو) منسوخ ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تائید میں مرفوع روایات بھی ہیں۔ (مثلاً دیکھئے حدیث ابی داود: 1151، وسندہ حسن)

ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ ہر رکعت میں رکوع سے پہلے ہر تکبیر پر رفع یدین کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کی نماز پوری ہو جاتی۔ (مسند احمد 2/ 134، وسندہ حسن، ماہنامہ الحدیث حضرو: 17 ص 6)

اس حدیث سے سلف صالحین (امام بیہقی فی السنن الکبریٰ 3/ 292، 293، اور ابن المنذر کما فی التلخیص الحبیر 2/ 86 ح 692) نے (متفقہ یعنی بغیر کسی اختلاف کے) استدلال کیا ہے کہ تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین کرنا چاہئے۔

امام اوزاعی رحمہ اللہ (متوفی 157ھ) نے فرمایا: تمام تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرو۔ (احکام العیدین للفریابی: 136، وسندہ صحیح)

نیز دیکھئے کتاب الام للشافعی (1/ 237) مسائل احمد (روایۃ ابی داود ص 60) اور تاریخ یحییٰ بن معین (روایۃ عباس الدوری: 2284)

سلف صالحین کے اس متفقہ فہم کے خلاف بعض جدید محققین اور متحققین کا یہ دعویٰ کہ ’’تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین نہیں کرنا چاہئے‘‘ بلا دلیل اور مردود ہے۔

تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ اشاعۃ الحدیث حضرو: 17 ص 6 تا 17

تنبیہ: کسی ایک صحیح حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے عید کی نماز بغیر تکبیروں کے پڑھی ہو اور یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ ان تکبیرات میں آپ ﷺ نے رفع یدین نہ کیا ہو۔

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 3 صفحہ 197 اور 198) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ