ایمان میں کمی بیشی کا مسئلہ

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال: کیا ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے؟ دلائل سے واضح کریں۔ (ایک سائل)

………… الجواب …………

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

((فَاَمَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا فَزَادَتْـهُـمْ اِيْمَانًا))

بے شک جو لوگ ایمان لائے ان کا ایمان زیادہ ہوتا ہے۔

(سورۃ التوبہ: 124)

اس مفہوم کی دیگر آیات کے لئے دیکھئے صحیح البخاری (کتاب الایمان، باب: 1 قبل ح 8)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((الإِیمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَۃً، وَالحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِنَ الإِیمَانِ))

ایمان کے ساٹھ سے زائد درجے ہیں اور حیا ایمان کا (ایک) درجہ ہے۔

(صحیح بخاری: 9، صحیح مسلم: 57/35، دارالسلام: 152)

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ أَحَبَّ لِلّٰہِ، وَأَبْغَضَ لِلّٰہِ، وَأَعْطَی لِلّٰہِ، وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْإِیمَانَ))

جو شخص اللہ کے لئے محبت کرے اور اللہ کے لئے بغض رکھے، اللہ کے لئے (مال) دے اور اللہ کے لئے (ہی مال) روکے تو اس کا ایمان مکمل ہے۔

(ابو داود: 4681 وسندہ حسن)

عمیر بن حبیب بن خماشہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’الْإِیمَانُ یَزِیدُ وَیَنْقُصُ‘‘

ایمان زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔

(کتاب الایمان لابن ابی شیبہ: 14، وسندہ صحیح)

اس کے راوی یزید بن عمیر کو امام عبدالرحمٰن بن مہدی نے ’’قوم توارثوا الصدق‘‘ میں سے قرار دیا ہے۔ (مسائل محمد بن عثمان بن ابی شیبہ: 25 بتحقیقی، المؤتلف والمختلف للدارقطنی 2/ 923)

اہل سنت کا یہی مسلک و موقف ہے کہ ایمان زیادہ اور کم ہوتاہے۔ (دیکھئے الشریعۃ للامام محمد بن الحسین الآجری ص 116-118) وشرح اصول اعتقاد اہل السنۃ للالکائی (5/ 890-964) وغیرہما۔

یہی عقیدہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل وغیرہم کا ہے۔ رحمہم اللہ اجمعین

جبکہ دیوبندیوں و بریلویوں کی کتاب عقائدنسفیہ (ص 92) میں لکھاہوا ہے:

’’والإیمان لا یزید ولا ینقص‘‘

ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے۔

دیوبندیوں کے نزدیک ایمان فقط تصدیق قلب کانام ہے۔ دیکھئے حقانی عقائدالاسلام (ص 123، تصنیف عبدالحق حقانی وپسند فرمودہ: محمد قاسم نانوتوی)

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’حَدَّثَنَا الھذیل بْنُ سُلَیْمَانَ أَبُو عِیسَی قَالَ: سَأَلْتُ الْأَوْزَاعِيَّ قُلْتُ: یَا أَبَا عَمْرٍو مَا تَقُولُ فِی رَفْعِ الْأَیْدِيْ مَعَ کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ، وَہُوَ قَائِمٌ فِی الصَّلَاۃِ؟ قَالَ: ذَلِکَ الْأَمْرُ الْأَوَّلُ، وَسُئِلَ الْأَوْزَاعِيُّ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنِ الْإِیمَانِ فَقَالَ: الْإِیمَانُ یَزِیدُ وَیَنْقُصُ۔ فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ الْإِیمَانَ لَا یَزِیدُ وَلَا یَنْقُصُ فَہُوَ صَاحِبُ بِدْعَۃٍ فَاحْذَرُوہُ‘‘

ہمیں ہذیل بن سلیمان ابو عیسیٰ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے اوزاعی سے پوچھا، میں نے کہا: اے ابو عمرو! آپ ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کے بارے میں کیا کہتے ہیں، جبکہ آدمی نماز میں کھڑا ہو؟ انھوں نے کہا: یہ پہلے والی بات ہے (یعنی اسلاف کا اسی پر عمل ہے) اور اوزاعی سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا اور میں سن رہاتھا تو انھوں نے فرمایا: ایمان زیادہ (بھی) ہوتا ہے اور کم (بھی) ہوتا ہے، جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ایمان زیادہ اور کم نہیں ہوتا وہ شخص بدعتی ہے اس سے بچو۔

(جزء رفع الیدین بتحقیقی: 108، حسن ہے، قلمی بخط یدی ص 129)

تنبیہ: میں نے جزء رفع یدین کے ترجمہ میں ’’حسن ہے‘‘ لکھا تھا جوکہ کمپوزر کی غلطی سے ’’ضعیف ہے‘‘ چھپ گیا، اس غلطی کی اصلاح مراجعت میں بھی رہ گئی، میرا طریق کار یہ ہے کہ میں ضعیف روایت کی وجہ بیان کر دیتا ہوں جبکہ جزء رفع یدین کے مطبوعہ نسخے میں ضعیف کی کوئی وجہ مذکور نہیں ہے۔ جزء رفع یدین کے عربی نسخے والی اصل پر بھی میرے ہاتھ سے بالکل صاف ’’اسنادہ حسن‘‘ لکھا ہوا ہے (قلمی ح 108) لہٰذا اپنے نسخوں کی اصلاح کر لیں۔

ہذیل بن سلیمان سے مراد فدیک بن سلیمان ہیں جن سے امام بخاری وغیرہ نے روایت بیان کی ہے اور امام بخاری عام طور پر اپنے نزدیک صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں، نیز حافظ ابن حبان نے بھی ان توثیق کی ہے لہٰذا فدیک ’’مذکور‘‘ حسن الحدیث ہیں۔

امام اوزاعی (متوفی 157ھ) کے اس فتویٰ سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ایمان کم اور زیادہ نہیں ہوتا وہ لوگ بدعتی ہیں۔ أعاذنا اللہ من شرّھم

………… اصل مضمون …………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 1 صفحہ 72 تا 74) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ