کلید التحقیق: فضائلِ ابی حنیفہ کی بعض کتابوں پر تحقیقی نظر

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


الحمد للّٰہ ربّ العالمین والصّلٰوۃ و السّلام علٰی رسولہ الأمین محمد ﷺ خاتم النبیین و رضي اللہ عن أصحابہ أجمعین و رحمۃ اللہ علٰی من تبعھم بإحسان: السلف الصالحین، أما بعد:

رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہو یا صحابی کا اثر، سلف صالحین کی روایات ہوں یا کسی شخص کا منقول قول و فعل ہو، اہلِ سنت کے نزدیک ہر روایت و منقول کے لئے متصل اور مقبول (صحیح و حسن) سند کا ہونا ضروری ہے، جیسا کہ مشہور ثقہ امام عبداللہ بن المبارک المروزی رحمہ اللہ (متوفی 181 ھ) نے فرمایا:

’’الإسناد من الدین ولو لا الإسناد لقال من شاء ما شاء‘‘

سندیں (بیان کرنا) دین میں سے ہے اور اگر سندیں نہ ہوتیں تو ہر آدمی جو چاہتا کہہ دیتا۔

(مقدمہ صحیح مسلم ج1ص 12، ترقیم دارالسلام: 32 وسندہ صحیح)

امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ (متوفی 198ھ) نے فرمایا:

’’لا تنظروا إلی الحدیث ولکن انظروا إلی الإسناد فإن صح الإسناد و إلا فلا تغترّ بالحدیث إذا لم یصح الإسناد۔‘‘

حدیث نہ دیکھو بلکہ سند دیکھو، پھر اگر سند صحیح ہو تو (ٹھیک ہے اور) اگر سند صحیح نہ ہوتو دھوکے میں نہ آنا۔

(الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع 2/ 102 ح 1301، وسندہ صحیح)

ضعیف و مردود اور بے سند روایات کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے، جیسا کہ حافظ ابن حبان نے فرمایا:

’’لأن ما روی الضعیف و مالم یرو: فی الحکم سیان‘‘

کیونکہ جو روایت ضعیف بیان کرے اور جس کی روایت ہی نہ ہو: دونوں حکم میں برابر ہیں۔

(المجروحین لابن حبان ج1ص 328، دوسرا نسخہ ج1ص 412 ترجمۃ سعید بن زیاد)

اہلِ سنت کے نزدیک قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا مقام ہے اور صحیحین کی تمام مسند متصل مرفوع احادیث صحیح ہیں، کیونکہ انھیں اُمت کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔ دیکھئے اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (1/ 124۔ 128، نوع اول) اور مقدمہ ابن الصلاح (مع التقیید والایضاح ص 41۔ 42، دوسرا نسخہ ص 97، نوع اول)

صحیحین کے علاوہ ہر کتاب کی روایت اور حوالہ صرف وہی مقبول ہے جس میں تین شرطیں ہوں:

1- صاحبِ کتاب ثقہ و صدوق عند جمہور المحدثین ہو۔

2- کتابِ مذکور اپنے مصنف (صاحبِ کتاب) سے ثابت ہو۔

3- صاحبِ کتاب سے آخری راوی یا قائل و فاعل تک سند متصل و مقبول (صحیح یا حسن) ہو۔

ان میں سے اگر ایک شرط بھی مفقود ہو تو حوالہ بے کار ہے اور روایتِ مذکورہ مردود ہے۔

اس تمہید کے بعد فضائلِ ابی حنیفہ قسم کی بعض کتابوں اور بعض فصول و ابواب کا تحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے:

1) فضائل أبي حنیفۃ وأخبارہ و مناقبہ

فضائل أبي حنیفۃ وأخبارہ و مناقبہ کے نام سے ایک کتاب مکتبہ امدادیہ (مکہ مکرمہ) سے شائع کی گئی ہے، جسے ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن احمد بن یحییٰ بن الحارث السعدی یعنی ابن ابی العوام کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

اسے قاضی ابو عبداللہ محمد بن سلامہ بن جعفر القضاعی (متوفی 454ھ) نے درج ذیل سند کے ساتھ روایت کیا ہے:

’’أنبأ القاضي أبو العباس أحمد بن محمد بن عبداللہ بن أحمد بن یحیی بن الحارث السعدي المعروف بابن أبی العوام قال: حدثني أبو عبداللہ محمد ابن عبداللہ بن محمد قال: حدثني أبي أبو القاسم عبداللہ بن محمد بن أحمد بجمیع ھذا الکتاب قال: ۔۔۔‘‘

(فضائل ابی حنیفہ ص 36۔ 37، مخطوط مصور کی تصویر کے لئے دیکھئے فضائل ابی حنیفہ ص 29)

اس کتاب کے مذکورہ راویوں کے بارے میں مختصر اور جامع تحقیق درج ذیل ہے:

1: ابو العباس احمد بن محمد بن عبداللہ السعدی کا ذِکر، اُس کی وفات کے صدیوں بعد پیدا ہونے والے عبدالقادر قرشی حنفی نے کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’یأتي أبوہ و عبداللہ جدہ: من بیت العلماء الفضلاء‘‘

اس کے باپ (محمد بن عبداللہ) اور دادا(عبداللہ بن محمد) کاذِکر (آگے) آئے گا: علماء فضلاء کے گھر میں سے۔

(الجواہر المضیۂ ج1ص 106، ت 211)

عرض ہے کہ علماء و فضلاء کے گھر میں سے ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ شخص ثقہ یا صدوق ہے، مثلاً ظفر احمد تھانوی دیوبندی کا بیٹا عمر احمد عثمانی منکرِ حدیث تھا اور اشفاق الرحمن کاندھلوی کا بیٹا حبیب الرحمن کاندھلوی بھی منکرِ حدیث اور ساقط العدالت تھا۔

عبدالقادر قرشی نے کسی مجہول سے نقل کیا ہے کہ اس نے حاکم بامراللہ (رافضی زندیق) کے سامنے ابن ابی العوام کے بارے میں کہا: ’’ثقۃ صدوق‘‘ (الجواہر المضیۂ ج1ص 107)

عرض ہے کہ اس کا قائل مجہول ہے، لہٰذا یہ توثیق مردود ہے۔

عبدالقادر قرشی نے بتایا کہ (اسماعیلی رافضی حکمران) حاکم بامر اللہ نے اسے مصر کا قاضی بنایا تھا۔ (الجواہر المضیۂ ج1ص 107)

عرض ہے کہ یہ توثیق نہیں بلکہ زبردست جرح ہے۔

حاکم بامر اللہ بادشاہ کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

’’العبیدي المصري الرافضي بل الإسماعیلي الزندیق المدعي الربوبیۃ‘‘

عبیدی مصری رافضی بلکہ اسماعیلی زندیق، وہ رب ہونے کا دعویٰ کرتا تھا۔

(سیر اعلام النبلاء ج15ص 173)

حافظ ذہبی نے مزید فرمایا:

’’و کان شیطانًا مریدًا جبارًا عنیدًا، کثیر التلون سفاکًا للدماء، خبیث النحلۃ ۔۔۔ کان فرعون زمانہ‘‘

وہ سرکش شیطان، متکبر حق کا مخالف ہٹ دھرم، بڑے رنگ بدلنے والا، سفاکی سے (بے گناہوں کا) خون بہانے والا، خبیث عقیدے والا۔۔۔ اپنے زمانے کا فرعون تھا۔

(سیر اعلام النبلاء ج15ص 174)

ابن ابی العوام کی توثیق کسی قابلِ اعتماد محدث نے نہیں کی اور فرعونِ وقت، شیطان مَرید اور کافر زندیق کے قاضی ہونے کی رُو سے وہ مجروح اور ساقط العدالت ہے۔

2: فرعونِ وقت کے قاضی ابن ابی العوام کا باپ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بن محمد بالکل مجہول ہے۔ کسی کتاب میں اُس کی کوئی توثیق موجود نہیں، بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ عبدالقادر قرشی نے ابن ابی العوام کے ذکر میں یہ وعدہ کیا کہ وہ آگے اُس کا ذکر کریں گے مگر انھوں نے اس وعدے کی خلاف ورزی کی اور آگے جا کر اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

اگر قافلۂ باطل کے کسی تنخواہ خوار کو اس شخص کے حالات مل جائیں تو مکتبۃ الحدیث حضرو(ضلع اٹک) کے پتے پر روانہ کرے اور اگر حالات نہ مل سکیں تو ۔۔۔!!

3: ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن احمد بن یحییٰ بن الحارث کو عبدالقادر قرشی نے مختصراً ذکر کیا مگر کوئی توثیق نقل نہیں کی۔ (دیکھئے الجواہر المضیۂ ج1ص 282 ت 150)

یعنی یہ شخص بھی مجہول ہے۔ نیز دیکھئے یمن کے مشہور عالم شیخ عبدالرحمٰن بن یحییٰ المعلمی المکی رحمہ اللہ کی کتاب: طلیعۃ التنکیل (ص 27۔ 28) اور التنکیل (ج1ص 27۔ 28)

اس تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ ’’فضائل ابی حنیفہ و اخبارہ و مناقبہ‘‘ نامی کتاب غیر ثابت ہونے کی وجہ سے مردود ہے، لہٰذا اس کتاب کا کوئی حوالہ بھی قابلِ اعتماد نہیں ہے اِلا یہ کہ کسی دوسری مستند کتاب میں صحیح سند سے ثابت ہو۔

2) مناقب الامام ابی حنیفہ

ابو المؤید موفق بن احمد المکی الخوارزمی اَخطب خوارزم (متوفی 568ھ) کی کتاب: ’’مناقب الامام ابی حنیفہ‘‘ مکتبہ اسلامیہ میزان مارکیٹ، کوئٹہ سے شائع شدہ ہے۔

اس کے مصنف موفق بن احمد کی کوئی توثیق کسی معتبر محدّث سے ثابت نہیں ہے بلکہ حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ذہبی نے اُس کی روایات پر جرح کی ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ ان شاء اللہ

کردری حنفی نے موفق بن احمد کے بارے میں لکھا ہے:

’’المعتزلي القائل بتفضیل علي علٰی کل الصحابۃ‘‘

یعنی وہ معتزلی تھا، تمام صحابہ پر (سیدنا) علی (رضی اللہ عنہ) کی فضیلت کا قائل تھا۔

(مناقب الکردری ج1ص 88)

یعنی یہ شخص رافضی اور معتزلی تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں اُس نے ایک کتاب لکھی، جس میں موضوع(جھوٹی) روایات ہیں۔ دیکھئے منہاج السنۃ النبویہ لابن تیمیہ (3/10) اور المنتقیٰ من منہاج السنہ للذہبی (ص 312)

حافظ ابن تیمیہ نے فرمایا کہ وہ علمائے حدیث میں سے نہیں اور نہ اس فن میں اس کی طرف کبھی رجوع کیا جاتا ہے۔ (منہاج السنہ 3/ 10)

حافظ ذہبی نے فرمایا: اس کی کتاب فضائل علی میں نے دیکھی ہے، اس میں انتہائی کمزور روایتیں بہت زیادہ ہیں۔ (تاریخ الاسلام 39/ 327)

لہٰذا ایسے شخص کو (معتزلیوں کا) علامہ، ادیب فصیح اور مفوّہ کہہ دینے سے اُس کی توثیق ثابت نہیں ہو جاتی۔ نیز دیکھئے المنتقیٰ من منہاج السنہ للذہبی (ص 312، دوسرا نسخہ ص 153)

مختصراً عرض ہے کہ موفق بن احمد معتزلی اور رافضی ہونے کی وجہ سے مجروح ہے، لہٰذا اس کی ساری کتاب ناقابلِ اعتماد ہے۔

3) مناقب ابی حنیفہ

محمد بن محمد بن شہاب الکردری الحنفی صاحب البزازیہ (متوفی 827ھ) کی کتاب ’’مناقب ابی حنیفہ‘‘ بے سند ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتماد ہے۔

اس کتاب میں محدثین کے طرز پر مکمل سندیں لکھنے کا التزام نہیں کیا گیا بلکہ بغیر سند کے کرمانی، مرغینانی اور سلامی وغیرہم سے بے سر وپا روایتیں جمع کر دی گئی ہیں۔

4) عقود الجمان في مناقب الإمام الأعظم أبي حنیفۃ النعمان

محمد بن یوسف الصالحی الدمشقی الشافعی (متوفی 942ھ) کی کتاب: ’’عقود الجمان في مناقب الإمام الأعظم أبي حنیفۃ النعمان‘‘ کو مکتبۃ الایمان ۔ السمانیہ (المدینۃ المنورۃ) سے شائع کیا گیا ہے اور یہ ساری کتاب متصل اسانید کے بغیر یعنی بغیر سند کے ہے، لہٰذا قابلِ اعتماد نہیں ہے اور مردود ہے۔ دیکھئے فقرہ: 5

تنبیہ: اس ناقابلِ اعتماد کتاب کا اُردو میں ترجمہ بھی چھپا ہوا ہے۔ !!

5) الخیرات الحسان فی مناقب الإمام الأعظم أبي حنیفۃ النعمان

احمد بن حجر الہیتمی المکی (متوفی 973ھ) کی کتاب: ’’الخیرات الحسان فی مناقب الإمام الأعظم أبي حنیفۃ النعمان‘‘ دار الکتب العلمیہ بیروت (لبنان) سے مطبوع ہے اور یہ ساری کی ساری بے سند ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتماد اور مردود ہے۔

سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے: ’’اور امام بخاری ؒ نے اپنے استدلال میں ان کے اثر کی کوئی سند نقل نہیں کی اور بے سند بات حجت نہیں ہو سکتی۔‘‘ (احسن الکلام ج1ص 327، دوسرا نسخہ ج1ص 403)

غلام رسول سعیدی بریلوی نے لکھا ہے: ’’اور جو روایت بلا سند مذکور ہو وہ حجت نہیں ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلم ج1ص 511 سطر نمبر 2)

عرض ہے کہ جب بے سند اور بلا سند بات حجت نہیں تو پھر آپ یہ بے سند کتابیں کیوں اُٹھائے پھرتے ہیں اور کیوں ان کے حوالے پیش کرتے ہیں؟

6) تبییض الصحیفۃ في مناقب الإمام أبي حنیفۃ

جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابی بکر السیوطی (متوفی 911ھ) کی کتاب: ’’تبییض الصحیفۃ في مناقب الإمام أبي حنیفۃ‘‘ بھی بے سند کتابوں میں سے ہے، لہٰذا اس کا ہر حوالہ ناقابلِ اعتماد اور مردود ہے اِلایہ کہ دوسری کسی مستند کتاب میں مقبول سند سے ثابت ہو جائے۔

7) مناقب الإمام أبي حنیفۃ و صاحبیہ أبي یوسف و محمد بن الحسن

حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا رسالہ ’’مناقب الإمام أبي حنیفۃ و صاحبیہ أبي یوسف و محمد بن الحسن‘‘ اور ان کی دوسری کتابوں مثلاً سیر اعلام النبلاء وغیرہ میں امام ابوحنیفہ، قاضی ابو یوسف اور ابن فرقد شیبانی وغیرہم کے بارے میں روایات بے سند ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتماد ہیں، لہٰذا اصل کتابوں کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔

8) ’’تہذیب الکمال‘‘ میں فضائل ابی حنیفہ کے بارے میں روایات

حافظ ابو الحجاج یوسف بن عبدالرحمٰن المزی الشامی رحمہ اللہ کی کتاب تہذیب الکمال میں امام ابو حنیفہ کے حالات میں بعض روایات بلا سند ہیں اور بعض کی سندیں موجود ہیں، لہٰذا کتابِ مذکور کے ہر قول اور ہر روایت کی تحقیق ضروری ہے اور بغیر تحقیق کے اس کتاب کا حوالہ دینا مرجوح اور ناقابلِ اعتماد ہے۔ مثلاً اس کتاب میں امام صاحب کے بارے میں ’’رأی أنس بن مالک‘‘ والا قول بلا سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

تفصیل میری کتاب: الأسانید الصحیحۃ في أخبار الإمام أبي حنیفۃ (قلمی ص 54 تا ص 80)میں ہے۔ والحمد للہ

9) ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں فضائل ابی حنیفہ کے بارے میں روایات

حافظ ابن حجر العسقلانی کی کتاب تہذیب التہذیب میں امام ابو حنیفہ کے بارے میں ساری روایات بے سند ہیں، لہٰذا کتابِ مذکور کے ہر قول اور ہر حوالے کی تحقیق ضروری ہے، اگر دوسری کسی با سند کتاب میں روایتِ مذکورہ صحیح ثابت ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کتاب کا بغیر تحقیق کے نرا حوالہ دے دینا غلط اور ناقابلِ اعتماد ہے۔

10) أخبار أبي حنیفۃ و أصحابہ

ابو عبداللہ حسین بن علی الصیمری (متوفی 436ھ) کی کتاب: ’’أخبار أبي حنیفۃ و أصحابہ‘‘ مکتبہ عزیزیہ ملتان سے مطبوع ہے۔

صیمری سچے تھے اور کتابِ مذکور میں سندیں موجود ہیں، لیکن اس کتاب کی عام روایات ضعیف، مجروح اور کذاب راویوں سے مروی ہیں مثلاً:

1: احمد بن عطیہ الحمانی (کذاب) - دیکھئے الکامل لابن عدی (1/ 202، دوسرا نسخہ 1/ 327۔ 328) اور الحدیث (عدد 72ص 12۔ 14)

2: شاذان المروزی (کذاب) - دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل (8/ 480ت 2199)

3: ابو الحسن علی بن الحسن الرازی (ضعیف) - دیکھئے تاریخ بغداد (11/388۔ 389 ت 6261)

4: ابو عبید اللہ محمد بن عمران بن موسیٰ المرزبانی (ضعیف) - دیکھئے تاریخ بغداد (3/135۔ 136ت 1159)

5: عبداللہ بن محمد بن ابراہیم الحلوانی ابو القاسم الشاہد ابن الثلاج (کذاب یضع الحدیث) - دیکھئے تاریخ بغداد (10/ 136۔ 138ت 5277)

6: محمد بن شجاع الثلجی (کذاب) - دیکھئے الکامل لابن عدی (6/ 2293، دوسرا نسخہ 7/ 551) اور الحدیث (عدد 68ص48)

7: ابو عبداللہ احمد بن محمد بن علی الصیرفی: ابن الابنوسی (ضعیف) - دیکھئے تاریخ بغداد (5/ 69 ت 2447)

8: حامد بن آدم (مجروح) - دیکھئے احوال الرجال للجوزجانی (381) اور لسان المیزان (2/ 163، دوسرا نسخہ 2/ 298)

9: خارجہ بن مصعب (متروک)[دیکھئے تقریب التہذیب (1612)]

10: حسن بن زیاد اللؤلؤی (کذاب) [دیکھئے تاریخ یحییٰ بن معین (روایۃ الدوری: 1765) اور میری کتاب:تحقیقی مقالات (2/ 337)]

اس کتاب میں بہت سے مجہول راویوں کی روایات بھی درج ذیل ہیں، مثلاً عمر بن اسحاق بن ابراہیم (ص 89) مجہول ہے۔ مختصر یہ کہ صرف صیمری کی کتاب کا حوالہ دے دینا کافی نہیں بلکہ سند کی مکمل تحقیق کر کے صحیح ثابت ہو جانے کے بعد ہی حوالہ دینا چاہئے ورنہ ایسے حوالوں کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔

11) ’’تاریخ بغداد‘‘ میں فضائل ابی حنیفہ کے بارے میں روایات

خطیب بغدادی رحمہ اللہ (ثقہ عادل اور انصاف پسند معتدل) کی کتاب تاریخ بغداد انتہائی معتبر کتابوں میں سے ہے، اس میں عام طور پر سندوں کا التزام کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں امام ابو حنیفہ کے حق میں اور مخالفت میں بہت سی روایات جمع کی گئی ہیں جن میں سے بعض صحیح و حسن ہیں، بعض موضوع و باطل ہیں اور بعض ضعیف و مردود ہیں، لہٰذا اس کتاب کی ہر روایت کی ہر سند کا تحقیقی جائزہ ضروری ہے اور سند کے صحیح یا حسن ثابت ہو جانے کے بعد ہی اس کا حوالہ دینا چاہئے۔

اس کتاب میں بعض اقوال بے سند بھی موجود ہیں، مثلاً خطیب بغدادی کا قول کہ امام ابو حنیفہ نے (سیدنا) انس بن مالک ( رضی اللہ عنہ) کو دیکھا تھا، بے سند ہے اور بے سند ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتماد ہے۔

12) ’’الانتقاء‘‘ میں فضائل ابی حنیفہ کے بارے میں روایات

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی کتاب: الانتقاء میں فضائل ابی حنیفہ کے بارے میں اکثر روایات ابو یعقوب یوسف بن احمد یعنی ابن الدخیل کے مجہول التوثیق ہونے کی وجہ سے ضعیف و مردود ہیں۔ (ابن الدخیل کے مجہول ہونے کے لئے دیکھئے مقدمہ ابی الوفاء الافغانی التقلیدی لاخبار ابی حنیفہ: کتاب الصیمری ص ج)

13) فضائل ابی حنیفہ پر اُردو زبان میں کتابیں

اہلِ بدعت نے بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فضائل و مناقب پر اردو زبان (وغیرہ) میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں، لیکن یہ ساری کتابیں بے سند اور صحیح تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔ مثلاً:

1: شبلی نعمانی کی کتاب: سیرت النعمان

2: سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب: مقام ابی حنیفہ رحمہ اللہ

3: ظفر احمد تھانوی دیوبندی کی عربی کتاب: أبو حنیفۃ و أصحابہ المحدثون (دیکھئے اعلاء السنن ج20۔ 21)

4: طاہر القادری کی کتاب: ’’امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ امام الائمۃ فی الحدیث‘‘

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی ناقابلِ اعتماد کتابیں ہیں جو موضوعات اور مردود روایتوں سے بھری پڑی ہیں۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کوئی کتاب بھی باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔

خوارزمی (توثیق نامعلوم) کی جامع المسانید اور عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی (کذاب) کی کتاب مسند ابی حنیفہ بھی ناقابلِ اعتماد ہیں۔

حارثی کے حالات کے لئے دیکھئے میری کتاب: نور العینین (ص 43)

ابو نعیم الاصبہانی رحمہ اللہ (ثقہ و صدوق) کی کتاب: ’’مسند الامام ابی حنیفہ‘‘ میں عام روایات ضعیف، مردود اور موضوع ہیں، لہٰذا اس کتاب کی ہر روایت کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ اس مسند کے مصنف امام ابو نعیم الاصبہانی رحمہ اللہ (متوفی 430ھ) نے امام رحمہ اللہ کے بارے میں اپنے نزدیک درج ذیل تحقیق لکھی ہے:

’’قال بخلق القرآن، و استتیب من کلامہ الردئ غیر مرۃ ۔ کثیر الخطأ و الأوھام ۔‘‘

(کتاب الضعفاء لابی نعیم ص 154، ت 255، مطبوعہ دارالثقافۃ المغرب یعنی مراکش)

یہ عبارت بہت شدید جرح ہے اور راقم الحروف نے حافظ ابو نعیم کی عبارتِ مذکورہ کا ترجمہ جان بوجھ کر نہیں کیا، کیونکہ عوام کو اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔

مختصر یہ کہ ابو نعیم کی کتاب ہو یا کسی محدث اور امام کی کتاب ہو، کسی عالم کی کتاب ہو یا کسی جاہل کی کتاب ہو، صحیح العقیدہ کی کتاب ہو یا بدعقیدہ بدعتی گمراہ کی کتاب ہو، ہر کتاب کی ہر روایت کی تحقیق ضروری ہے، سوائے صحیحین کے، ان کی تمام مرفوع مسند متصل روایات یقینا صحیح ہیں۔ والحمد للہ

اصل مضمون کے لئے دیکھیں: مقالات جلد 4 صفحہ 319 اور ماہنامہ الحدیث شمارہ 78 صفحہ 40